آج وہ اپنے ماضی کے حصار میں جکڑا ہوا تھا۔ برگِ امید تو تین دہائیاں قبل ہی دم توڑ چکا تھا۔ اب اس کے تار تار دامن میں سوائے چند یادوں کے باقی سب حروفِ غلط کی طرح مٹ چکا تھا۔ وہ اپنی ڈوبتی سانسوں اور نحیف نگاہوں سے ماضی کے جھرنوں میں جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پرانی حویلی کی گود میں لگا آم کا درخت اور اسکے اردگرد جھومر ڈالتے گلاب کے پودے مستی میں جھوم رہے تھے۔ آم کے درخت پر بنا گھونسلہ اسے کبھی نہیں بھولا۔ اس گھونسلے کو دیکھنا اس کا معمول تھا۔ معلوم نہیں اس گھونسلے میں ایسی کونسی بات تھی جو اسے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ جب وہ پرانی حویلی کو چھوڑ کر نئے بنگلے میں منتقل ہو رہے تھے تب بھی جاتے جاتے اس نے گھونسلے کیطرف دیکھا تھا۔ اس منتقلی کیبعد پرانی حویلی میں وہ ایک ہی بار آ سکا تھا۔ پرانی حویلی تو وہی تھی جس کی گود میں وہ پلا بڑھا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ گود اجڑ چکی تھی۔ اب آم کے درخت کے اردگرد گلاب کے پودے جھومر نہیں ڈالتے تھے۔ وہ گھونسلہ بھی موجود تھا مگر تنکا تنکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برآمدے کی دیواریں چیخ چیخ کر اپنی حالت زار بیان کر رہی تھیں مگر انکی آواز کہیں گارے اور مٹی کی اینٹوں میں دب کر رہ گئی تھی۔
Old Man in Bed
وہ بجھا بجھا نرم بستر پر لیٹا سوچوں کا تانا بانا بن رہا تھا۔ یہ نرم ملائم بستر اسکیلئے کانٹوں کی سیج تھی۔ اس نے اپنی نحیف نگاہوں سے صحن کیطرف کھلنے والی کھڑکی سے باہر کیطرف دیکھا۔ صحن میں لگے ہوئے درختوں سے چاندنی الجھ رہی تھی۔ شبنم پھولوں کی نرم و نازک پنکھریوں سے یوں ڈھل رہی تھی جیسے تسبیح کے دانے۔ بیتے ہوئے دنوں کی یادیں شبنم کے قطروں کیطرح اسکے ذہن پر ٹپ ٹپ گر رہی تھیں۔ گزری یادیں اور ظالم تنہائیاں اسکے اردگرد رقص کناں تھیں۔ وہ ایک عالیشان بنگلے کے ایک عمدہ کمرے میں زندگی کے آخری پل گزار رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس سے سرگوشی کر رہا ہے۔ اسے مدھر سی، البیلی مانوس ہستی ابھرتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔یہ ہنسی تو اس نے پہلے بھی کہیں سنی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے گلاب کے پھولوں کا گجرا اسکے جسم کو مس کرتا ہوا گزر گیا ہو۔ اس نے گھبرا کر نرم ریشمی تکیے کے نیچے اپنا منہ چھپا لیا۔ درد کی ایک تیز لہر اسکے سینے سے اٹھی اور وہ کھانس کھانس کر نڈھال ہو گیا۔ چہرہ بھی انگارے کی طرح دہکنے لگا اور پانی آنکھوں کے راستے سے بہنے کی کوشش کر رہا تھا۔
old man and ghost
میں تمہاری ہنسی کی آواز سن کر آئی ہوں۔ اس نے چوہدری کرم داد سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ ت ۔۔۔۔۔۔۔ ت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔تم چلی کیوں نہیں جاتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دو ہمیشہ کے لیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ چلی جائو۔ چوہدری کرم داد کی آواز لڑکھڑانے لگی۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔ مجسم غم بنی اسکے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی سیاہ گھنی پلکوں پر آنسو سمٹے ہوئے تھے۔ اسکا بدن ان دیکھے زخموں سے چور تھا۔ ‘ چوہدری کرم داد تم رو کیوں رہے ہو؟ نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری کرم داد نے پھیکی مسکراہٹ پھیلاتے ہوئے کہا۔ مجھے ایسی مسکراہٹ سے نفرت ہے جس میں سوز کی کرچیاں ہوں۔ چوہدری کرم داد۔ چوہدری کرم داد کو ایسا لگا جیسے اسکے سینے میں کوئی چیز ٹوٹی ہو۔ اسکی پھیکی مسکراہٹ بھی بجھ گئی ۔ وہ تازہ ہوا کے جھونکے کیطرح آئی اور چلی گئی۔ کس ثابت قدمی سے وہ خدمت کیے جا رہی تھی۔ میں نے اسے کیا دیا ہے؟ کاش میں اسے محبت دے سکتا۔ چوہدری کرم داد نے سوچا۔ زندگی انسان کی سب سے قریبی دوست ہے مرتے دم تک وہ اسکا ساتھ نبھاتی ہے۔ کبھی کوئی شکوہ نہیں، کبھی کوئی شکایت نہیں۔ اسے دوسروں کے درد سمیٹنے کا شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دھن ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جذبہ ہے جو دیے کی طرح ٹمٹما رہا ہے۔
کھانسی نے پھر زور باندھا، چوہدری کرم داد کھانس کھانس کر نڈھال ہو گیا۔ اسکے کانوں میں پڑنے والی معصوم سسکیاں مدھم پڑ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسکے سامنے کھڑی تھی، اسے تسلیاں دے رہی تھی۔ جب کھانسی کا دورہ ختم ہوا تو وہ بھی چلی گئی۔ ” کرم داد” اس نے بند ہوتی ہوئی نگاہوں سے ایک ہیولے کو دیکھا۔ اسکا اپنا سراپا اسکے سامنے کھڑا تھا۔ ” تجھے اس سے پیار ہو گیا ہے ناں؟ ” ” نہیں مجھے اس سے نفرت ہے۔” چوہدری کرم داد کا چہرہ تلملا اٹھا۔ ” میں اس سے جتنا دور بھاگتا ہوں وہ اتنا میرے قریب آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ ایسا کیوں ہے؟”
sad old man
ناچار دین محمد، ڈرائیور کو بلانے چلا گیا چوہدری کرم داد کی کھانسی پھر شروع ہو چکی تھی۔ بوجھل بوجھل قدم اٹھاتے چوہدری کرم داد کمرے سے باہر آ گیا۔ ٹھنڈی ہوا نے کھانسی دوچند کر دی تھی۔ اس کی اکھڑی اکھڑی بے ترتیب سانسیں کھانسی کے طوفان میں ہچکولے کھانے لگیں۔ اس نے پیچھے مڑ کر ایک نظر بنگلے پر ڈالی اور گاڑی میں بیٹھ گیا، ڈرائیور نے گاڑی کا رخ پرانی حویلی کیطرف کر دیا۔ گاڑی آہستہ آہستہ طوفانی ہوا سے لڑتی حویلی کے سامنے آ کر رک گئی۔ چوہدری کرم داد گاڑی سے اتر کر لڑکھڑاتا ہوا حویلی کے صدر دروازے کیطرف بڑھنے لگا۔
Man old man silhouette
سینے کے درد میں اضافہ ہو چکا تھا۔ کھانسی کی شدت سے دو قدم چلنا دشوار ہو گیا تھا مگر وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر حویلی جانے کی دھن میں صدر دروازے کیطرف بڑھ رہا تھا۔ ہوا کی تیز لہروں نے رقص کرنا شروع کر دیا تھا۔ ٹھنڈی خونی رات کا آخری پہر بھی شور مچا رہا تھا۔ اب چوہدری کرم داد کا رخ اس درخت کیطرف تھا جس پر کبھی گھونسلہ ہوا کرتا تھا۔ چوہدری کرم داد چند قدم ہی چلا تھا کہ کھانسی کی شدت سے لڑکھڑا کر گرا۔ فضا میں طوفانی ہوا کی ایک چیخ بلند ہوئی، اسکے ساتھ گھونسلے کا آخری تنکا بھی اڑا کر لے گئی۔ دور آسمان پر ایک ستارہ اپنے پیچھے خونی لکیر چھوڑتا ہوا فضا میں گم ہو گیا۔