مجھے اچانک نظر وہ آئی! میں چُپ رہا پر کچھ اس طرح سے مرے پریشاں سوال اُبھرے تمام سوئے خیال اُبھرے تڑپتی جانوں کو جیسے لے کر کسی مچھیرے کا جال اُبھرے
سمجھ نہ پایا کہ کیا کروں میں قدم بڑھائوں کہ ٹھہر جائوں جو چند لمحوں میں یاد آیا اُسے سُنائوں کہ لوٹ جائوں رہوں سلامت کہ ٹوٹ جائوں عجیب عالم تھا جسم و جاں کا
قدم نہ اُٹھتے تھے شل بدن تھا گماں یقیں تھا وہ پل قرن تھا خیال آیا اُسے بتائوں کہ میں وہی ہوں کہ جس پہ تم مہرباں کبھی تھے خیال آیا اُسے جتائوں محبتوں کے رفاقتوں کے وہ عہدوپیماں ہاں میں نے چاہا اُسے پکاروں قدم بڑھانا ہی چاہتا تھا مگر اچانک وہ پھول بچّہ جو ریت سے گھر بنا رہا تھا
پکار اُٹھا میں کب سے یہ گھر بنا رہا ہوں مگر سمندر کو کیسے روکوں کہ میرے گھر یہ گرا رہا ہے مجھے یہ بے حد ستا رہا ہے یہ میرے خوابوں کے سب گھروندوں کو ڈھا رہا ہے، بہا رہا ہے ” میں تھک گیا ہوں، تھکی ہو تم بھی چلو نہ ماں اب چلو یہاں سے ہمارا گھر ہی ہے سب سے اچھا” میں سُن رہا تھا تمام باتیں پسینہ ماتھے سے بہہ رہا تھا تھا روشنی میں پہ گہہ رہا تھا میں تھا سلامت کے ڈھ رہا تھا عجیب عالم تھا جسم و جاں کا قدم نہ اُٹھتے تھے شل بدن تھا یقیں گماں تھا وہ پِل قرن تھا جو آج صحرا ہے کل چمن تھا اسی تذبذب میں تھا ابھی میں کہ میرے ماتھے کو ننّھے ہاتھوں نے یوں ہلایا کہ جیسے مجھ کو جگا رہے ہوں پلٹ کے دیکھا تو میری بیٹی سرہانے بیٹھی تھی میرا کاندھا ہلا رہی تھی جگا رہی تھی ہے کیا حقیقت بتا رہی تھی عدیل زیدی