درباری

talking on phone

talking on phone

اپنی تقریروں میں امریکہ کا انتہائی مخالف شفاقت علی اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اچانک فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سیکرٹری تھی جس نے لائن پر پریذیڈنٹ آف امریکہ کے ہونے کا انکشاف کیا۔ وہ فوراً سنبھل کر بیٹھ گیا اور دوسری طرف سے آواز ہوئی۔ ہیلو مسٹر علی ہاؤ آر یو؟ یس سر، آئی ایم او کے اینڈ ہاؤ آر یو؟ وہ انکساری سے بولا او آئی ایم فائن۔ امریکی صدر کی آواز آئی۔ آئی جسٹ وانٹ ٹو کانگریٹ یو آن یور سکسیس مسٹر علی۔ امریکی صدر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ اوہ تھینک یو ویری مچ سر، شفاقت علی نے انکساری سے کہا۔ مسٹر علی ڈو یو نیڈ سم ایڈ فرام می۔ امریکی صدر نے متکبرانہ لہجے میں کہا۔ اوہ یس سر وائے ناٹ شفاقت علی کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ او کے آئی نیڈ سم ٹیررسٹس اٹس اپ ٹو یو ہاؤ یو ول گو اس۔ امریکی صدر نے اپنا مدعا بیان کیا۔

اوہ اٹس اپ ٹو یو، وی ول پے یو ہنڈرڈ تھاؤزنڈز ڈالر فار ایچ ٹیررسٹ۔ امریکی صدر نے اسے بھاؤ بتایا اسکی باچھیں کھلی جا رہی تھیں اور وہ ڈالروں کی بہار ہی بہار دیکھ رہا تھا۔ او کے سر آئی ول میک یو ہیپی اینڈ ہوپ یو ول لک آفٹر می۔ انتہائی انکساری سے اس نے جواب دیا۔ او کے مسٹر علی بائے سی یو وین۔ یہ کہہ کر امریکی صدر نے فون رکھ دیا اور شفاقت علی سپنوں کی دنیا میں کھو گیا اور دل ہی دل میں پروگرام بنانے لگا کہ کسطرح کتنے لوگ جلد سے جلد حاصل کر کے سرکار تک پہنچائے جائیں۔

تین دن کے اندر اس نے کم ازکم اٹھائیس سو بندے دہشتگردی کے چکر میں پکڑ لیے تھے اور اسپیشل قید خانوں میں بند کروا دیا۔ پندرہ دنوں میں اس نے کم ازکم پانچ ہزار دہشتگرد پکڑوا کر امریکی سرکار کے حوالے کر دیے۔ دہشتگرد بھی کیا کیا قسم کے تھے جو اسکے کاغذات انتہائی خطرناک اور شدید نقصان دہ تھے۔ جو ملک و ملت کیلئے ایک بدنما داغ تھے مگر اصل حقیقت صرف وہی جانتا تھا یا اسکا دست راست شہباز ملک جانتا تھا کہ دہشتگردوں کے نام پر ان دونوں نے ملک خداداد کے وہ معصوم شہری پکڑ پکڑ کر درندوں کے حوالے کر دیے تھے جو اپنی دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کما پاتے تھے۔ اس نے شہباز ملک کو اپنے آفس میں بلایا اور بولا شہباز کیا رپورٹ ہے؟
سر جی سارا پیسہ آپکے سوئس اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا ہے۔ صدر صاحب امریکہ بڑے خوش ہیں۔

dollors

dollors

اور اب وہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں یہاں پر تھوڑی سی جگہ عنایت فرما دیں جو آپکے منہ سے نکلے گا وہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اوہ اچھا شفاقت علی کی باچھیں کھل گئیں۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے عوام تو ہے ہی بیوقوف کوئی بہانہ بنا دینگے۔ انہیں اجازت دیدو۔ جب تک مرغی انڈہ دیتی ہے اسے کھلانا تو پڑتا ہی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دونوں ایک دم قہقہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔