اسلام کی دعوت کا کام نیا نہیں بلکہ یہ انسان کے پیداہوتے ہی شروع ہوگیا ۔ اسلام اتنی آسانی سے دنیا میں نہیں پھیلا جتنا آج کل کے مسلمان سمجھ رہے ہیں ۔ دین کی خاطر تمام انبیاء نے آزمائشیں اور تکالیف برداشت کیں۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسلام کی خاطر طائف میں پتھر کھائے ۔ آپ کے پیر لہولہان ہوگئے تھے ۔اگر اسلام کی قدر پوچھنی ہے تو اس دور کے مسلمانوں سے پوچھو جنہوں نے اس کی خاطر جانیں تک قربان کردی۔ ہم تو بس نام کے مسلمان ہیں کیونکہ ہمیں وراثت میں اسلام ملا ہے ۔ پاکستان بنا تو اسلام کے مطابق آزادی مل گئی۔ اب ہم اپنے ملک میں جیسے مرضی اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پہلے دور میں مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تکالیف اور آزمائشیں برداشت کرنا پڑیں لیکن خود مسلمانوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ سہولتیں دیں ۔اسلام کی دعوت کے لیے حکمرانوں نے بھی ہر ممکن سہولت دی ۔
پہلے زمانے میں لوگ ایک جمعہ پڑھنے کے لیے میلوں سفر کرکے جاتے تھے اور اب ہر محلے میں مسجد ہے اور نماز کے لیے مسلمان میسر نہیں۔ پرانے زمانے میں دعوت اسلام کے لیے لوگ پیدل یا گھوڑوں پر لمبا سفر کرکے دوسرے شہروں میں جاتے تھے ۔ بھوکے پیاسے رہ کر اسلام کی خدمت کرتے تھے ۔ آج ہمارے ملک میں خود مسلمان اسلام کے اصولوں کے خلاف کام کرنے میں مصروف ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیںاور جو اسلام کا پیغام پھیلا رہے ہیں ان کو مطعون کرتے ہیں ۔
اگر میں غلطی پر نہ ہوں تو شاید حج کے بعد مسلمانوں کا دوسرا بڑا اجتماع رائیونڈ میں ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ الحمدللہ حج کی ادائیگی کے لیے اللہ نے جب مجھے اپنے گھر بلایاتھا تو وہاں مسلمانوں کے اجتماع کے لیے وہاں کی حکومت کے انتظامات دیکھے ہیں اور ادھر رائیونڈ کے اجتماع کے لیے اپنی پاکستان کی حکومت کے انتظامات بھی۔ جب پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا ہے تو پھر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس اجتماع کے مطابق انتظامات کرے۔
رائیونڈ کے لیے جوراستے جاتے ہیں ان میں صرف لاہور ٹھوکر نیاز بیگ سے لیکر رائیونڈ تک روڈ قدرے بہترہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ بھی شریف سٹی کی وجہ سے ہے ۔ مانگا منڈی سے رائیونڈ تک روڈ برے طریقے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے ۔ اسی طرح دوسرا روڈ چھانگا مانگا ، کوٹ رادھاکشن سے ہوتا ہوا رائیونڈ جاتا ہے جس میں ہر طر ف بڑے بڑے گڑھے اور آدھی سڑک ہی غائب ہے۔ جو داعیان اسلام قصور شہر سے آئیں تو ان کے لیے بھی ہاضمے کی درستی کے لیے محکمہ ہائی وے نے بہترین انتظام کیا ہے تاکہ گڑھوں میں دھکے کھا کر ان کا ہاضمہ بھی ٹھیک ہو اور انجر پنجر بھی ایڈجسٹ ہوں ۔
Science And Technology
جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں اتنی صلاحیت دے دی ہے تو پھر ان سڑکوں کو کیوں مرمت نہیں کیا جاتا ؟ حج کے موقع پر جوسڑکیں سارا سال بند رہتی ہیں ان کو بھی کھول دیا جاتا ہے اور ان کے علاوہ نئے راستے بھی بنائے جاتے ہیں مگر ہمارے ملک میں نئی سڑکیں تو بہت دور کی بات پہلے سے موجود سڑکوں کو بھی مرمت نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ بیرون ممالک سے آتے ہیں وہ اپنے ملک میں پاکستان کی کس قدر تعریف کرتے ہونگے ۔لاہور میں تو کروڑوں کی لاگت سے تیار کردہ سڑکوں کو بناتے ہی نئے پراجیکٹ کے نام پر سرمایہ ضائع کیا جا رہا ہے ۔ جب کہ رائے ونڈ ، کوٹرادھا کشن اور قصور سے آنے والے پبلک ٹرانسپورٹ میں ٹرانسپورٹرز کا منہ مانگا کرایہ دے کر بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔ 15کلو میٹرز کا فاصلہ ایک گھنٹہ میں طے ہوتا ہے ۔ کیا تخت لاہور کے حکمران ایک دن مانگا منڈی سے رائے ونڈ تک سفر کر کے عام مسافروں کی تکلیف محسوس کر سکتے ہیں ؟کیا دنیا بھر سے آنے والے اسلام کے داعیوں کے لیے خادم اعلیٰ سڑکیں بنوا کر دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ بنا سکتے ہیں؟ یہ تمام کی تمام برکتیں اور رحمتیں صرف ”اتفاق” کے لیے ہیں ؟