اپنے شعروں کے تو ممدوح تھے موزوں بدناں یوں ملا اس کا صلہ، شان ویا کے شایاں عشق مہجو رو تپاں، وصل نصیب دگراں ہاں ہمیں دعویٰ زباں کا ہے، مگر اس عنواں اپنی دلی یہ جہاں، اپنی محبت ہے زباں تم سے پہلے ہی میاں، عشق کے قدموں کے نقوش ماہ و مریخ کے ہاں، زہر سے کاہکشاں تم سے کس مصر کے بازار میں کیا مول لیا؟ یوسف دل ہے یہاں سینۂ انشا میں نہاں آج ہم منزل مقصود سے مایوس ہوئے ہر طرف راہبراں، راہبراں، راہبراں وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکاں