سر ہیرلڈولسن کا کہنا ہے کہ ”سیاست میں ہرہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتا ہے” اور اِسی طرح سیاست میں ہر دن ایک نیا دن ہوتاہے ، سیاست میں نہ تو کو ئی کسی کا دشمن ہوتا ہے اور نہ دوست کیوں کہ اِس میں سب اپنے اپنے مفادات میں مگن رہتے ہیں اکثر اِسی لئے سیاست میں کل کے دشمن آج دوست اور اِسی طرح آج کے دوست کل کے دشمن کے روپ میں آمنے سامنے بھی آ کھڑے ہوتے ہیں۔ اِس پر آج مجھے یقین ہے کہ اِن دونوں کیفیات کا اندازہ میری پاکستانی قوم کو پچھلے دنوں بخوبی ہو گیا ہو گا کہ سیاست میں اقتدار اور مفادات کے حصولوں کی جنگ میں سب کچھ جائز ہو جاتا ہے جیسا کہ ہمارے یہاں بھی گزشتہ دنوں قوم کو دیکھنے کو ملا ہے اَب اِس کے بعد میں اپنی قوم سے یہ قوی اُمید رکھنا چاہوں گا کہ اَب یہ کسی کے جھانسے اور بہکاوے میں نہیں آئے گی اور کسی بھی سیاست دان اور رہنما کا پیچھے اِس کا دامن تھام کر نہیں چلی گی کیوں کہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جنھیں یہ معصوم عوام کو استعمال کرکے حاصل کرلیتے ہیں اور بیچاری عوام ہے کہ یہ ہر بار بے وقوف بن جاتی ہے مگر اِس بار عام انتخابات میں عوام کو بے وقوف بننے کا نہیں ، بلکہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا پجاریوں کو بے وقوف بنانے کا وقت ہے۔
میری قوم کو ایسا کیوں کرنا ہے تو اِس کے لئے ذرایہ تو سمجھ لو کہ ، لانگ مار چ اور دھرنے میں عوام کی دی گئیں قربانیوں کا فائدہ کس کس کو ہوا ہے ، تو غور سے سُنو..!تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے اپنے لاکھوں مریدین اور محب وطن پاکستانیوں کے ہمراہ اچودہ جنوری سے (اسلام آباد ) وفاقی دارلحکومت کے کاروباری علاقہ بلیو ایرایا میں انتخابی اصطلاحات اورملک میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے جودھرنا دیا تھا بالآخروہ دھرنا 84گھنٹے گزر جانے کے بعد سترہ جنوری کو علامہ طاہر القادری کے دیئے گئے چار نکاتی مذاکراتی عمل کی تکمیل کے بعد بخیر و عافیت اختتام پذیر تو ہو گیا ہے۔
مگر اَب یہ اور بات ہے کہ اِس مذاکراتی عمل کے ملک اور عوام پر مستقبل قریب میں کیا اور کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں یاہوں گے ..؟اِس کے بارے میں کم ازکم معاہدے کی تاریخ گزرنے سے قبل کچھ کہنا درست نہیں ہو گا کہ اِس معاہدے پر کتنا عمل کیا گیا ہے اور کتنا نہیں ، یاحکومت کا یہ سب کچھ کرنے کا مقصد صرف انقلاب کے جوش میں اُبلتے شیخ الاسلام اور اِن کے دھرنے میں شامل اِن کے لاکھوں مریدین سمیت کڑوروں ، مہنگائی ، بھوک و افلاس، تنگدست ، روٹی ، کپڑا ، مکان ، بجلی و گیس ، علاج و معالجہ ، تعلیم ، سفری سہولیات اور اپنی دیگر بنیادی آسائش زندگی سے محروم پاکستانی عوام کو لولی پاپ دینا تھا ، یاحقیقی معنوں میں اِس معاہدے کی روح جِسے”اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کا نام ”دیا گیا ہے اِس معاہدے کے مطابق اِس کے تمام طے شدہ نکات پروقتِ مقررہ پر من و عن عمل کر کے اِس کے ثمرات عوام تک پہنچا بھی تھا۔
Pakistan Elections
اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں مفلوک الحال اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم پاکستانی قوم کو آنے والے دنوں میں خود اِس بات کا تجزیہ کرنا ہو گا کہ اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کے نام پر کئے جانے والے معاہدے پر ہمارے موجودہ جمہوریت پسند حکمرانوں نے کتنا عمل کیا اور اِس کے کتنے ثمرات عوام تک پہنچے ہیں ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اَب آئندہ ہونے والے انتخابات جس کی تاریخ بھی چار ، پانچ یا چھ مئی میں سے کوئی ایک حتمی قرار پائے گی وہ بھی حکومت نے دے دی ہے اَب اِس سے قبل یہ فیصلہ کرنااِس عوام کا کام ہے جوکہ دھرنے میں شامل تھی اور اِس دھرنے کو اپنے مسائل کا نجات دھندہ تصور کرتی تھی اِسے عام انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ حکومت نے معاہدہ لانگ مارچ پر کتنا عمل کیا ہے اور کتنا نہیں …؟اور اِس کے عوام تک کتنے ثمرات پہنچتے نظر آئے ہیں کہ نہیں۔
بہر حال..! یہاں یہ امر قابلِ ذکر ضرور ہے کہ علامہ طاہر القادری کی رہنمائی میں وفاقی دارلحکومت کے کاروباری علاقہ بلیو ایرایا میں دیا جانے والا دھرنا جس میں لاکھوں افراد جن میں معصوم بچے، خواتین ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سمیت ضعیف عمر افراد کی بھی خاصی تعداد موجود تھی آج یہ لاکھوں کا دھرنا دنیا کی تاریخ کا حقیقی معنوں میں ایک ایسا پُرامن اور پُرسکون دھرنے کا درجہ حاصل کر چکا ہے جس نے روزِ اول سے ہی عالم کُل میں ایک ایسی تاریخ رقم کردی ہے کہ بین الاقوامی سطح کے مبصرین اور تجزیہ نگار اَب تک حیران ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں چار روزتک اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہنے والے وہ پاکستانی جو دنیا بھر میں جذباتی مشہور ہیں اِنہوں نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے خاطر ایک ایسادھرنادیاجس کے دھرنیوں نے ایک پتھر تو کیاتشدد کا کوئی ہلکا پھلکا مظاہرہ بھی نہیں کیا جس سے یقینا عالمی سطح پر پاکستانیوں کا ایک اچھا امیج گیا ہے کہ ساری پاکستانی قوم ایسی ہرگزنہیں ہے جیسی ساری دنیا اِنہیں دہشت گرد اور جذباتی اور جنونی گردانتی ہے یہ ٹھیک کہ کچھ ایسے ہوں گے۔
مگر یہاں سوال یہ بھی تو پیدا ہوتاہے ایسے لوگ دنیاکے کس ملک اورکس قوم میں کب موجود نہیں رہے ہیں اور جو یقینا آج بھی اِن میں موجود ہوں گے مگر مٹھی بھر بگڑے ہوؤں کی وجہ سے ساری دنیا کا آج پوری پاکستانی قوم کو دہشت گرد اور جنونی کہنا یکسر غلط ہے اصل میں میرے پاکستانیوں کی اصل فطرت اور حقیقی چہرہ یہ ہے جو ساری دنیا نے لاکھوںکے پُرامن دھرنے میں دیکھا ہے اَب اِس کے بعد دنیا میں بسنے والے کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہوناچاہئے ہے کہ کوئی چند مٹھی بھر عناصر کی وجہ سے میرے پاکستانیوں کو دہشت گرد اور جنونی کہہ کر اپنا الو سیدھا کرتا پھرے اور امن پسند اور پُرسکون رہنے والی پاکستانی قوم کو دہشت گرد اور جنونی گردان کر اِس کی زندگی تنگ کرے اور اِس ترقی اور خوشحالی کی راہیں بند کرے۔
Tahir Ul Qadri
ہاں تو اَب میں بات کرنے جارہاہوں دھرنے کے آخری دن کے آخری لمحات میں دھرنیوں کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی جانب سے حکومت کو آخری بار دیئے جانے والے الٹی میٹم اور ڈیڈلائن کی جس کے بعد علامہ اور حکومتی کارندوں کی جانب سے جتنا لچک کا مظاہرہ کیا گیا جہاں اِس سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیںتو وہیں دونوں جانب سے کیا جانے والا نرم رویہ بھی قابلِ بحث ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جانب سے نرمی اور لچک کے عمل سے اتنا تو ضرور ہو گیا ہے کہ سخت سردی اور بارش کے موسم میں لاکھوں خواتین ، بچوں ، بڑھوں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں پر رحم کھایا گیا اور ایک ایسا مذاکراتی عمل شروع کیا گیا جس سے دھرنے کے نہتے اور معصوم پاکستانیوں کی جان کی خلاصی تو ہو گئی مگر اِس معاہدے کے بعد علامہ کے معصوم دھرنیوں کے ہاتھوں سوائے گیس بجلی ، خوراک ، تعلیم، علاج و معالجہ اور دیگر سہولیات سے پہلے والی محرومی کے کچھ نہیں آیاہے یعنی اِس دھرنے کے رہنمااور معاہدے میں شامل حکومتی کارندوں نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے لچکدار کا جتنابھی مظاہرہ کیاآج اِن کے پاس اِس کی تعریف میں کہنے کو شاید الفاظ تک نہیں ہیں۔
اگرچہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا عمل اُس وقت شروع کیا گیا جب دھرنے کے چوتھے روز ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی غصیلی اور غضب ناک آواز میں اپنے مخصوص انداز سے اسلام آباد کی سخت سردی اور دھرنے کی پہلی بارش کے ساتھ ہی حکومت کو اپنا آخری ڈیڑھ گھنٹے کا(ڈرامائی) الٹی میٹم دیا تو حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور حکومتی مشینری حرکت میں آگئی اور صدر زرداری کی وزیر اعظم کو دی جانے والی خصوصی ہدایات پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے طاہر القادری سے مذاکرات کے لئے فوری طور پر ایک دس رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل بھی دے دی جس کی قیادت چوہدری شجاعت حسین کر رہے تھے جبکہ اِس ٹیم کے شرکاء میں فاروق ایچ نائیک ، مخدوم امین فہیم ، قمر زمان کائرہ ، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری ، مشاہد حسین سید ، خورشید شاہ ، عباس آفریدی اور افراسیاب خٹک شامل تھے جنہوں نے سخت حفاظتی انتظامات میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایک کنٹینر میں بنائے گئے ۔
Islamabad Meeting
بنکر نما کمرے میں پانچ گھنٹے مذاکرات کے بعد اِن کی جانب سے پیش کردہ بیشتر نکات مان لئے جس پر صدر آصف علی زرداری کی رضا مندی کے بعد مذاکراتی ٹیم کے شرکاء سمیت طاہر القادری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے بھی دستخط ہوئے جس کے بعد اِس معاہدے کو”اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کا نام ”دیا گیا ہے۔ اگرچہ دھرنا ختم ہو گیا ہے اور ایک معاہدہ عمل میں بھی لایا جا چکا ہے اِس پر میں پاکستانی قوم اور معاہدیوں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا عوام کو یقین ہے کہ اِس معاہدے سے انتخابی اصطلاحات ہوجائیں گیں اور اِس کے مسائل حل ہوجائیں گے..؟ اور اِسے چین اور سُکھ نصیب ہوجائے گا، تو یہ عوام کی شاید بھول ہے کیوں کہ اِس سارے معاہدے کا فائدہ حکمران جماعت کو ہو گا اِس سے یہ بالخصوص پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں اپنا وقار بحال کرے گی اور اپوزیشن کی اُن جماعتوں کو پست کرے گی جو اِس گمان میں ہیں کہ عام انتخابات سے قبل یہ جمہوریت کی آڑ میں الائنس بنالیں گیں اور جیت اِن کی ہو گی اور اقتدار اِن کے ہاتھ ہو گا تو ایسا ہر گز نہیں ہے اِس معاہدے کی رو سے موجودہ برسرِ اقتدار جماعت آئندہ ایک مرتبہ پھر مسندِ اقتدار پر قدم رنجا فرما کر عوام کی گردنوں پر اپنی حکمرانی قائم کرلے گی اور بیچارے عوام پھر پانچ سال کے لئے اپنے بنیادی حقوق گیس وبجلی ، خوراک ، علاج و معالجہ،تعلیم ، پانی اور دیگر آسائش زندگی سے محروم رہ کر دہشت گردی، قتل وغارت گری، کرپشن، لوٹ مار اور بہت سے خطرات میں گھر کر زندہ درگوں ہو جائیں گے۔