جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 12ربیع الاول کی خصوصی اشاعت کے لیے آج پورے عالم اسلام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کا دن بڑے جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے ، دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں سے قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدائے دلنواز سنائی نہ دے رہی ہو ، 12 ربیع الاول کے دن ہر صاحبِ ایمان اپنے من میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوت جگائے مسرت و خوشی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اس مقدس اور پاکیزہ ترین دن میں اللہ رب العزت نے اپنے سب سے پیارے محبوب پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم میں مبعوث فر مایا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزہ کتاب قرآن مجید میں رسول رحمت ، پیغمبر انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا”میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں میری آیات سناتا ہے۔
تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے (البقرہ ، 151 )ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ”وہ اللہ وہی ہے جس نے اُم القریٰ کے رہنے والوں کے درمیان ایک رسول اُٹھایا جو اُنہیں اللہ تعا لیٰ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور اُن کی اصلاحِ نفس کرتا ہے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ”(جمعہ )ماہرین کتب کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید ہی ہے جبکہ پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر سب سے زیادہ لٹریچر شائع ہوا اور آج دنیا میں جتنے لوگ بھی مسلمان ہو رہے ہیں وہ سب کے سب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کو پڑھ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔
کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری راہنمائی کرتی نظر آتی ہے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضابطہ اخلاق ترتیب نہ دیا ہو ، اور دنیا میں واحد ایسی شخصیت ہیں کہ جن کی ولادت باسعادت سے لے کر ظاہری وصال تک ہر لمحہ رخشندہ ، تابندہ اورنکھرا ہوا نظر آتا ہے امور ِ کتب خانہ میں عالمی شہرت یافتہ مصنف اور لائبریرین مسٹر روز نتھال ، ایف اپنی تصنیف (Four Eassaysonart And Literature In islam……Leiden.1971)میں لکھتے ہیں کہ ” پیغمبر اسلام کی شخصیت پر کتب لکھنے کا سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے مسلسل جاری ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں کاغذاور قلم ایجاد ہو چکا تھا اس لیے مصنفین نے سیرت پاک کے ہر پہلو کو ابتدا ء ہی میں من و عن محفوظ کر لیا مسلم مورخین ، مصنفین ، مفکرین ، ادباء اور شعراء بغرض عقیدت لکھنا پسند کرتے تھے جبکہ غیر مسلم عالمی مورخین ، محققین ، اور مصنفین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے مطالعہ کی ابتدا ء فنی ضرورت کے ضمن کرتے مگر بعد ازاں یہ مطالعہ ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گرویدہ اور عقیدت مند بنا دیتا ہے عقیدت اور ضرورت کے اس تناظر میں سیرت پاک پر نا قابل شمار کتب تصنیف کی گئیں۔
محدود جا ئزہ کے مطابق ہا رون الرشید کے عہد میں صرف ”بیت الحکمت ” میں موجود دس لاکھ کتب میں سے ساڑھے تین لاکھ کتب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھیں فاطمی خلیفہ الحاکم با مر اللہ کے قاہرہ میں قائم کتب خانہ ”دار العلم ” میں سیرت پاک پر چار لاکھ کتب مو جود تھیں جبکہ چھٹی صدی ہجری میں کردوں کے ہاتھوں تباہ ہو نے والے کتب خانے جلال الکتب میں موجود سولہ لاکھ کتا بوں میں سے صرف سیرت پاک پر تحریر کتب کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے زائد عنوانات پر مشتمل تھی۔
طرابلس میں بنو عمار کے کتب خانے میں تیس لاکھ کتب موجود تھیں جن کا ایک تہائی سے زائد حصہ سیرت نبوی پر لکھی جا نے والی کتا بوں پر مشتمل تھا ترکی میں سلطان محمد فاتح کے دور میں صرف استنبول کے کتب خانوں میں سیرت نبوی پر مختلف عنوانات کے تحت تیس لاکھ کتب موجود تھیں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر جب قلعہ ملوٹ پر قبضہ کیا تو ابراہیم لودھی کے کتب خانہ سے چند سیرت پاک پر کتابیں ملیں ورثہ میں جب یہ ہمایوں کو ملیں تو اس نے بطور احترام قلعہ کی تیسری منزل شیر منڈل پر منتقل کیا اور یہیں ایک عظیم کتب خانہ بنایا اس شاہی کتب خانہ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور سیرت پاک پر لکھی ہوئی کتب کا ذخیرہ اورنگ زیب عہد میں پچاس لاکھ سے زائد تھا مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد یہ کتابیں منتشر ہو گئیں۔
بہت سے نجی کتب خا نوں کے علاوہ یورپ بھی منتقل ہوئیں، اگرچہ تا تاریوں کے بغداد پرحملہ سے دہل کے 1857ء ء کے غدر تک کتب خانے مسلسل حادثات کا شکار رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود سیرت پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر دنیا کے دوسرے حصوں میں کتب کا بہت سا ذخیرہ ہمیشہ محفوظ رہا ہے جیسا کہ مدینة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کتب خانہ محمودیہ اور کتب خانہ شیخ الاسلام وغیرہ مشہور تھے برٹش لائبریری لندن کے سابق مہتمم C.A.COULSON کے مطابق سیرت پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں البتہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ مواد اگر کسی شخصیت پر لکھا گیا ہے تو وہ بلا شبہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ بین الاقوامی لائبریریوں میںاگر ہم سیرت پاک کے کیٹلاگ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور جغرافیہ کے ہر خطے میں مختلف رنگ و نسل و ملت کے باشعور افراد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضورہدیہ عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے ہم اگر ماضی میں سفر کرتے ہوئے عالم تصور میںعہد رسالت میںدربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کریں تو ہم دیکھیںگے کہ اس دربار میں ، بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، کرز فہری ، عدس نینوائی ، جماد ازدی ، سراقہ ، عدی طائی ، طفیل ، دوسی ، اثامہ نجدی ، ابو عامر اشعری ، ابو حارث ، قیس مازنی ، مالک خزاعی ، مرداس فرازی ، ابوسفیان اموی کے علاوہ بے شمار ملک و ملت ، قبیلہ و نسل کے لوگ پہلو بہ پہلوبیٹھے نظر آتے ہیں۔
یہ نہیں کہ دربار صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص و محدود ہو بلکہ یہاںصحائف قدیم کے عالم اور ماہر لسانیات سرمہ بن انس ہیںیہودیوںکے سب سے بڑے پیشوا اور توریت کے عالم کامل عبد اللہ بن سلام ہیںیہاں نجران کے عیسائیوں کا اسقف اعظم کرز بن علقمہ ہیںیہاں کعبہ کے کلید بردار عرب کے امیر ترین عثمان طلحہ موجود ہیںاور یہیں ٹاٹ کے کمبل میں ببول کے کانٹوں سے بخیہ گری کیے ہوئے ذو الیجان بھی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ مساوات اور رواداری کا سبق دیا ہے آج بھی اگر اُمت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے من میں اُتار لے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا لے تو آج بھی ہم کامیابی و کامرانی حاصل کر سکتے ہیں اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر لمحہ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں بسر کرنے کی تو فیق عطا فر مائے (آمین)۔
Prophet Muhammad PBUH
آج پورے عالم اسلام میں رسول ِ رحمت ،پیغمبر انسانیت ،رُوحِ ایماں ، جانِ ایماں ، شانِ کائنات ،مقصودِ کائنات ،فخرِ موجودات ،سراپا نور کے پیکر میں ڈھلے ”نُور علی نُور ”حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی خوشی منائی جا رہی ہے آج عجب سماں ہے ،چڑیاں چہچہا رہی ہیں ، بہا ریں مسکرا رہی ہیں ،کلیاں کھِل رہی ہیں،شگوفے پھوٹ رہے ہیں،کوئل کُو کُو کر رہی ہے ،آبشاروں کے ترنم سے ”خوشیاں منائو کملی والا آگیا ”کے نغمے بہار بن کر کائنات میں جلوے بکھیر رہے ہیں ،ہر طرف نور کی شعاعیں انوار و تجلیات کا منظر پیش کر رہی ہیں ،کائنات کا ذرہ ذرہ، صحرا صحرا،قطرہ قطرہ ،قُلزم قُلزم رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جھوم جھوم رہا ہے، چرند پرند ،حجر و شجر ،پھول و کلیاں ،چاند و چاندنی ، سورج و کرنیں ، ستارے و سیارے ، دریا و صحرا ، کھیت و کھلیان ،زمین و زماں ، مکین و مکاں ، الفاظ و حروف سمیت اس کائنات میں سوائے ابلیس کے آج سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں،خوشیاں کیوں ناں منائیں ؟ 12ربیع الاول کو اس کریم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کائنات کو شرف بخشا جس کے پاکیزہ و مُصفیٰ توسل سے ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائی میں گری اور فرسودہ رسم و رواج کے شکنجوں میں جکڑی عورت کو شرف و عزت اور آزادی نصیب ہوئی ،12ربیع الاول بیٹی کو باپ کی شفقت کا سایہ، بہن کو بھائی کی چھتر چھائوں ،بیوی کو شوہر کی طرف سے حفاظت کی چادر ،ماں کو ”اَلَجنةُ تحتَ اَقدامِ الاُمھَات” کا مژدہ جاں فزا،اُستاذ کو ”اِنَما بُعثِتُ مُعَلمَاََ”کی خوشخبری اور غلام کو آزادی کا پروانہ نصیب ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل عورت کو پائوں کی جوتی اور نفرت و گھن کی علامت تصور کیا جاتا تھامگر جونہی 12ربیع الاول کی پاکیزہ ، شفاف ، شبنمی ،اُجلی ، نکھری ، لطیف و نظیف اور محبت و شفقت کے پیکر میں ڈھلی صُبح صادق طلوع ہوئی تو اس کے ساتھ ہی ہر طرف ظلم و تشدد ، جہالت و گمراہی ،کثافت و غلاظت ، نفرت و تعصب کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا، 12ربیع الاول کی وہ سہانی صُبح کی بابرکت اور با رحمت گھڑی جس صُبح چمکا طیبہ کا چاند ،اُن دل افروز ساعتوں پہ لا کھوں ،کروڑوں ، اربوں نہیں بلکہ کھربوں درودو سلام کے نذرانے اور عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرنے کو دل کرتا ہے کیونکہ رسول ِ رحمت نبی کریم ، رئوف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ پاکیزہ اور کائنات میں سب سے زیادہ قیمتی ترین محل جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔
اُس کو سجدہ کرنے کے لیے اُس دن محرابِ کعبہ کو بھی جھکنا پڑا اور قیصرو کسریٰ کے محلات پہ جگمگاتے کنگرے ،طیبہ طاہرہ مکرمہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے محل سے نکلنے والی نورانی شعاعوں کے سامنے تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑے تھے اور ہزاروں سال سے روشن بُت کدہ آناََ فاناََ بُجھ گیا تھا رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آمد سے لسانی ، علاقائی ، نسلی اور قومی چوہدراہٹ کے بُت پاش پاش کر دیئے گئے، افتادہ و پسماندہ طبقات کو جتنا تحفظ و احترام رسولِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا دنیا کے کسی بھی آئین و قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو روشن ، تابندہ ، رخشندہ ، درخشندہ اور چمکدار نظر آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر بحیثیت باپ کے پیمانے پر دیکھا جائے تو بیٹی کے ساتھ شفقت و محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جب بھی خاتونِ جنت سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے استقبا ل کے لیے سرو قد کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور عصمت و طہارت کی حامل پیشانی مبارک پر بوسہ دے کر خاتون ِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹھنے کے لیے وہ مبارک چادر ِ تطہیر بچھا دیتے تھے جس کوربِ ذو الجلال نے”ےَا اَےُھَا المُزمِل ” کے آفاقی خطاب سے نوازا ہے۔ بحیثیت شوہر اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بیوی کے ساتھ محبت کا ایسا پاکیزہ انداز پڑھنے کو ملتا ہے کہ جب کائنات کے مومنین کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس برتن سے منہ لگا کر پانی نوش فرماتیں تھیں اُسی برتن میں اُسی جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنا منہ مبارک لگا کر پانی نوش فرماتے تھے بیوی کے ساتھ محبت و شفقت کا ایسا مثالی و عملی نمونہ پیش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کائنات پر بسنے والی جمیع انسانیت کو اپنی اپنی بیویوں سے محبت و شفقت کا طریقہ بتا دیا ،بحیثیت بھائی اگر کائنات کے سوہنڑے تے من موہنڑے لجپال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مُصفیٰ تے مُزکیٰ صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں رسول ِ رحمت حضور نبی کریم ۖ کا اپنی رضاعی بہن جنابِ حضرت شیمارضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیار و محبت کا ایسا انوکھا انداز پڑھنے کو ملتا ہے جس کو پڑھ کر انسانیت کا سر فخر سے بلند نظر آتا ہے رضاعی بہن سے پیار و احترام کا ایسا پاکیزہ رشتہ انسانیت کو آج تک دیکھنے اور سُننے کو نہیں ملا ، بحیثیت آقا اگر دیکھنا ہو تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن دس سالوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو رسول ِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفیق و کریم بارگاہ ِ عظمت میں بسر ہوئے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ” میں نے 10سال اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں گزارے مگر میرے لجپال کریم و شفیق آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی مجھے جِھڑ کا تک نہیں اور یہ تک نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا ہے اور یہ نہیں کیا ۔
Eid Milad un Nabi
یہ تو رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے صرف چندنمونے ہیں اگر سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قلم لکھنا چاہیے تو بالآخر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ قلم عاجزی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے کائنات میں جگہ جگہ جو حُسن و جمال کے جلوے نظر آرہے ہیں یہ سب میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے مبارک تلوئوں کو چھونے والے ذروں کی خیرات کا صدقہ ہے کیونکہ قلندر لاہور ی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی جس کی اذیت کو رب تعالیٰ اپنی اذیت قرار دے فرمایا ”بے شک جو اذیت دیتے ہیں اللہ اور اُس کے رسول کو اُن پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے (سورة الا حزاب ،آیت 57)جس کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے آداب خود ربِ ذوالجلال کی طرف سے عطا ہوئے ہوں کہ اے ایمان والو !اپنی آوازیں اونچی نہ کیا کرو اس (غیب بتانے والے ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اور نہ ان کے حضور چلا کر نہ کہو ،جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ”(سورة الحجرات ،آیت ٢) ادب گاہے زیست آسمان از عرش نازک تر
نفس گُم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا جس کے بارے میں بریلی کے کچے کوٹھے میں ٹوٹی چٹائی پر بیٹھے پکے عقیدے کی حامل شخصیت امام احمد رضا خاں بریلوی نے کیا خوب فرمایا کہ اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ اِن سا نہیں اِنسان وہ اِنسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ وہ شہر مقدس جس کی پابوسی کا شرف عرش بریں بھی حاصل کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہو ،یقیناََ اس شہر کو یہ اعزاز و اکرام قیامت تک ملتا رہے گا کیونکہ اس کی آغوش میں تاقیامت رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں ،یہ شہر کبھی ”یثرب”کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن رسولِ رحمت،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے جلوئوں کی وجہ سے ”مدینة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” بنا دیا یہی تو وہ مبارک اور مقدس شہر ہے جہاں تعظیم کی خاطر آنکھیں بے اختیار جھُک اور گردنیں بے ساختہ خَم ہوجاتی ہیں ناچیز نے دنیا بھر میں تبلیغی سفر کیے ہیں ،بلند قامت ،عالیشان ،پر شکوہ عمارات کو قریب سے دیکھا ہے ،ایوانِ صدر بھی گیا ، کئی سو ایکڑ رقبے پر پھیلے وزیر اعظم ہائوس کا وزٹ بھی کیا ہے ،گورنر ہائوس جانے کا بھی اتفاق ہوا ان تمام تر کارپٹڈ اور فرنشڈ عمارات کو عقیدت و محبت سے نہیں دیکھا کیونکہ درِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گدا ان تمام چیزوں کو پرِ کاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے
بستر لگا ہو جن کا تیری گلی میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخت سکندری پہ وہ تھو کتے بھی نہیں
مگر جونہی پر خطا نگا ہیں عالم کائنات کے محور و مرکز ”گنبدِ خضراء ”کی سنہری سنہری جالیوں پر پڑتی ہیں تو روح کے دریچوں میں ایک سرشاری سی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ پر شکوہ عمارات میں بچھے اٹلی ، سوئٹرز لینڈ ، ملائیشیا کے کارپٹس کی قیمت اس بوسیدہ چٹائی کے تنکے کے برابر بھی نہیں ہے جہاں پر میرے اور آپ سب کے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہے ہوں گے لہذا آج کے مقدس اور بابرکت د ن کی مناسبت سے یہ ضروری ہے کہ بحیثیت اُمتی ہماری ہر ہر ادا میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عکس نظر آنا چاہیے تب جشن ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔