رمضان المبارک اپنی تمام تر رونقوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ افروز ہونے کو ہے ۔رمضان المبارک مسلمانوں کی روحانی اور جسمانی تربیت کا مہینہ ہے ‘جس کا ایک اک لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرمے کے لیے صرف چاہئے ۔رمضان المبارک اعلیٰ اقسام کی غذائیں کھانے یا ڈھیر ساری شاپنگ کرنے کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں سمیٹنے کے لیے ہے۔اگر یوں کہا جائے کہ رمضان المبارک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لیے دین میں بہت سی آسانیاں فرمائی ہیں۔ ایسی ہی ایک نعمت ماہ رمضان کی صورت میں مسلمانوں کو عطا ہوئی جس میں خالق کائنات نے واضع کر دیا جو لوگ ماہ رمضان کے روزے احکام شریعت کے مطابق رکھیں اور تمام تر برائیوں بچے رہیں ان کے واستے دینا اورآخرت کی بھلائی اور بڑا اجر ہے اورجہیں اللہ کی ذات انام اجرسے نواز دے وہی نیک وکارلوگ ہیںاب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
اللہ کے نیک بندوں کو مبارک ہو رمضان کا مہینہ ۔یوں تو ہم سب اس مہینے میں نیک ہوجاتے ہیں اور خصوصی طور پر اس ماہ کے روزوں کا اہتمام کرتے ہیں سب صبح سویرے اٹھتے ہیں سحری کھانے کے بعد نماز فجر کے لیے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں ۔ پھر سارا دن بغیر کچھ کھائے پیئے ظہر،عصر کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور شام کو اذان مغرب کے وقت جب افطاری کا وقت ہوتا تو بازاروں کے رنگ دیکھنے والے ہوتے ہیں سب کا دل یہی کر رہا ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں اپنے دسترخوان پر سجا لے۔کیا سارا دن بھوکے اور پیاسے رہنے کے بعد شام کو دو تین دن کے برابر کھانے کو روزہ کہتے ہیں ۔
ramadan mubarak
کیا نماز اور باقی سارے اچھے کاموں کا حکم صرف رمضان کے مہینے کے لیے ہی ہے ۔ یا اس کے علاوہ باقی سال کے گیارہ مہینوں میں بھی کچھ ایسے ہی احکامات ہیں۔آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کے اندر روزے کے بارے کیا ارشادات ہیں اور ہماری دنیاوآخرت اورصحت پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
روزے رکھنے سے بہت سے روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ بہت سے جسمانی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں طب جدید اور طب قدیم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روزہ جسمانی بیماریوں کو دور کرنے کا بہترین علاج ہے اور انسانی جسم کی اصلاح کے لیے بہترین نسخہ ہے ۔روزہ آہستہ آہستہ بھوک اور پیاس کی آنچ سے تمام اندرونی اور بیرونی فضلات کو جو بدن میں بے کار پڑے رہتے ہیں اور صحت کو برباد کر تے رہتے ہیں جلا کر نیست و نابود کر دیتا ہے تو بدنی صحت وتندرستی جیسی نعمت روزے کی بدولت حاصل ہوتی ہے جو کہ کسی اورذریعے سے میسر نہیں آتی اور روزہ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بہ نیت عبادت اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور عمل زوجیت سے دور رکھے۔
اسلام کے جیسے اور احکام بتدریج (وقفہ وقفہ سے)فرض کیے گئے ہیں اسی طرح روزہ کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی،نبی کریمۖ نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ،مگریہ روزے فرض نہ تھے ،پھر 2ہجری میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن کریم میں نازل ہواور سال میں ایک مہینے کے روزے رکھنا اسلام کا چوتھا رکن قرار پایا مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہ رکھنا چاہیں وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلادیا کریں۔بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور عام لوگوں کے لیے یہ رعایت منسوخ کر دی گئی اور یہ رعایت صرف ان لوگوں کے حق میں باقی رکھی گئی جو روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں۔
بھوک پیاس کی برداشت ان پر دشوار ہو مشقت بہت اٹھانی پڑے مثلاً زیادہ بوڑھے مرد یا بوڑھی عورتیں یا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوںکوخاص طورپر اس میںرعائت دی گئی ۔اسلامی روزے کی غرض وغایت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ روزے خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر مستحکم کردیتے ہیں گرمی کا موسم ہے روزہ دار کو سخت پیاس لگی ہے مکان میں تنہا ہے کوئی ٹوکنے والا ہاتھ روکنے والا نہیں کوری صراحی میں صاف ستھرا نکھرا ہوا ٹھنڈا پانی اس کے سامنے موجود ہے مگر وہ پانی نہیں پیتاروزے دار کو سخت بھوک لگی ہوئی ہے بھوک کی وجہ سے جسم میں ضعف بھی محسوس کرتا ہے۔
نفیس ذائقہ مرغن غذا میسر ہے کوئی اسے دیکھ بھی نہیں سکتا کسی کو کان و کان خبر نہ ہوگی مگر وہ کھانا نہیں کھاتا۔پیاری دل پسند بیوی گھر میں موجود ہے جہاں نہ خویش ہے نہ بیگانہ نہ اپنا نہ پرایا محبت کے جذبات اسے ابھارتے ہیں الفت نے دونوں کو ایک دوسرے کا شیدا بنا رکھا ہے لیکن روزے دار اس سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے وجہ یہ ہے کہ خدا کے حکم کی عزت وعظمت اس کے دل میں اس قدر جاگزیں ہے کہ کوئی جذبہ بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا اور روزہ ہی اس کے دل میں عظمت و جلال الٰہی قائم ہونے کا باعث ہوا ہے ،تو بات ثابت ہوئی کے جب ایک ایماندار آدمی خدا کے حکم کی وجہ سے جائز ،حلال پاکیزہ خواہشوں کو چھوڑ دینے کی عادت اپنا لیتا ہے تو بالضر ورخدا کے حکم کی وجہ سے حرام ،ناجائز اور گندی عادتوں اور خواہشوں کوچھوڑ دے گا اور ان کے ارتقاب کی کبھی جرات نہیں کرے گا۔
roza
یہی وہ اخلاقی برتری ہے جس کا روزے دار کے اندر پیدا کرنا اسے مستحکم کر دینا شرع کا مقصود ہے ۔اسی لیے غیبت ،فحش زبانی اور بری باتوں اور تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے کی سخت تاکید یں احادیث میں آئی ہیں چنانچہارشاد ہے کہ جورو زے دار جھوٹ کہنا،لغوبکنا اورلغوفضول کاموں کو کرنا نہیں چھوڑتا تو خدا کوکچھ پرواہ نہیں اگر وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتا دیا ہے کے صرف بھوکھے اورپیاسے رہنے کا نام ہی روزہ نہیںہے بلکہ ان تمام باتوں اور کاموں سے بچنا بھی ضروری جو گناہ کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اگر ہم روزہ بھی رکھیں اور دنیا کے تمام تر برے کام بھی نہ چھوڑیںتو کوئی فائدہ نہیں ۔ جیسے کے ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں دوکاندار سہری کھا کر مسجد میں نماز پڑتا ہے اور دوکان پر بیٹھ کرسارہ دن جھوٹ بولتا اور کم تولتا ہے جھوٹ بول کر حرام کماتا ہے اور شام کو اسی کمائی سے افطاری کا سامان خریدتا ہے ،سرکاری یا پرائیوٹ آفیسر اپنے دفتر میں سارا دن رشوت لیتے ہیں اور ہم سارا دن دوسروں کی غیبت کرتے ہیں، سارا دن دوسروں کو کسی نہ کسی طریقے سے تکلیف دیتے ہیں تو کیاایسے کام کرنے سے ہم روزے دار بن سکتے ہیں اور کیا ہمارے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوسکتی ہے۔
جب کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا ہے کے اللہ کو ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ جس انسان نے امرود تو کھایا ہو پر کبھی آم کھایا ہی نہ ہو اسے کیا پتا کے آم زیادہ میٹھا ہوتا یا امرود ٹھیک اسی طرح جو انسان کبھی خالق کائنات کے احکامات پہ چلا ہی نہیں اسے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہی نہیں تو اسے قرب الٰہی کی لذت کا کیا پتا اور اگر اللہ کا قرب حاصل نہ ہوا تو ساری عبادتیں فضول ہیںکیسے روزے،کیسی نمازیں،اور کیسی زکواتیں سب کچھ رائیگاں جائے گا۔ ماہ رمضان ہو یا کوئی دوسرا مہینہ اگر کسی بھی عبادت کی قبولیت چاہے تو اپنے دلوں کو صاف کرنا ہوگا ہر اس عیب سے جو اللہ اور اس کے رسول کو نا پسند ہے۔اے ہمارے رب ہمیں دین حق پر استقامت عطا فرما ۔تحریر : امتیاز علی شاکر