قارئین آج ملک کس نہج پر ہے، پہلے کیا تھا اب کیا ہے، پہلے ملک کتنا مظبوط تھا اب کتنا ہے، پہلے کتنی مہنگائی تھی اب کتنی ہے، پہلے کتنی نوکریا ں تھیں اب کتنی ہیں، پہلے کتنی بے روزگاری تھی اب کتنی ہے، پہلے ملک کے حالات کیا تھے اب کیا ہیں،پہلے کتنی دودھ کی نہریں بہتی تھیں اب کتنی بہتی ہیں ۔ ان سب باتوںپر بہت کچھ لکھا جا چکا ،پڑھا جا چکا ،کہا جا چکا ،سنا جا چکا ۔لیکن آج ہم صرف سیاست کے میدان میں اترے اس بازیگر کی بات کرینگے جسے اس سیاسی اکھاڑے کا چمپئن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جہاں ہر سیاستدان اپنے آپ کو اس اکھاڑے کا منجھاہ وا کھلاڑی سمجھتا ہے۔ اورہمیں اس بات کو ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ جس طرح زرداری صاحب نے شروع دن سے اپنی سیاسی بازیگری کے جوہر دیکھا تے ہوئے بڑی کامیابی کے ساتھ جنرل مشرف سے ہاتھ ملایا بعد میں وہی ہاتھ پکڑ کر اقتدار کی کرسی سے محروم کردیا اور پھر جس انداز سے خود صدارت کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ان کی اس سیاسی بازیگری کو دنیا نے دیکھا اورحیرتکدے میں آج تک حیرت زدہ ہیں۔
یہ پیپلز پارٹی کا لک(Luck) ہے کہ جنھیں محترمہ شہید کے بعد زرداری جیسی اعلی سلجھی ہوئی ذی شعور قیادت نصیب ہوئی جنھوںنے بہترین حکمتِ عملی کے تحت تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہوئے ایک مفاہمتی اتحاد بنایا جس کے تحت تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلتے ہوئے مضبوط جمہوریت کی بنیاد ڈالی ۔دوسری طرف وہ اپوزیشن جماعتیں جنھیں زرداری صاحب اپنی عمدہ سیاست سے ڈھیر کیئے ہوئے ہیں جو ہر وقت اٹھتے بیٹھتے پیپلز پارٹی پر تنقید برائے تنقید کرتی نظر آتی ہیں ۔جن کا بس چلے تو وہ کل زرداری صاحب کی گورنمنٹ گرادیں لیکن بات پھر وہی آجاتی ہے کہ بس چلے تب نا۔ ابھی تو فل حال یہ سب بے بس ہیں اور اپنے تئیں کسی معجزے کے منتظر نظر آتے ہیں۔جہاں تک حکومت میں موجود اتحادی جماعتوں کا تعلق ہے توان میں بھی کچھ مفاد پرست ٹولے کی شکل میں لوگ موجود ہیں جو صرف چڑھتے سورج کو سلام کرنا جانتے ہیں انہیں جمہوریت سے کوئی لگائو ہے نہ زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسوں سے کوئی مطلب وہ تو بس مفاد پرستی کی چاشنی میں ڈوبے مدہوش رہناجانتے ہیں ۔بہر صورت زرداری صاحب بڑی ذہانت عقل و فہیم کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب رہے ہیںجوایک منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کی نشانی ہے ۔جہاں جس طرح ہوسکا اپنے اتحادیوں کو خوش رکھا بلکہ کہیں جگہوں پر اپنے اتحادیوں کو انھیں انکے حق سے زیادہ نوازہ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے اتحادی ان سے الگ ہونے کا سوچ کر بھی ان سے الگ نہیں ہوسکتے ۔خیبر پختون خواں کو دیکھیں جہاں اے این پی کی دلی خواہش اور پختون قوم کے دیرنہ مطالبے پر صوبہ سرحد کا نام ان کی منشاء کے مطابق خیبر پختون خواں رکھا۔
مسلم لیگ ق کو دیکھیں تو ان کو بھی اپنے اتحاد میں شامل کر کے ان پر بھی وزیروں مشیروں کی بارشیںجاری ہیںجبکہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں گورنمنٹ دیکر انکے منہ کو بھی لگام دے رکھی ہے اور وہ بے چارے اپوزیشن میں ہوکر بھی صرف نظموں غزلوں سے کام چلا رہے ہیں ۔بلوچستان کی کشیدہ صورتحال سے تو سب واقف ہیں لیکن یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ کشیدہ صورتحال کے باوجود بلوچستان کو گورنر راج سے بچا کر اپنی سیاسی حیثیت پر آنچ نہیں آنے دی۔دوسری طرف سندھ میں بھی ذرداری صاحب نے اپنی بہترین حکمتِ عملی اپناتے ہوئے پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کا مضبوط اتحاد بناکر ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی ضرورت بنا رکھا ہے جن کی بدولت سندھ کی عوام کو بلدیاتی نظام کا تحفہ ملا جواس دھرتی اور اس میں بسنے والے ہر سندھی چاہے وہ سندھی بولنے والا ہویا اردو بولنے والا سب کے لیے کسی انعام سے کم نہیں ہے۔
Asif Ali Zardari
اس کے علاوہ زرداری صاحب نے اپنی پارٹی میں موجود لوگوں کو بھی آگے آنے کے کئی مواقع فراہم کئے اب یہ کارکن پر منحصر ہے کہ اس نے اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھایا میدانِ سیاست میں اپنے آپ کو کس قدر کامیاب بنا یا۔یا پھر اپنا مختصر رول ادا کر کے واپس چلاگیا ۔چاہے جیسے بھی لیکن پیپلز پارٹی اپنی حکومتی مدت کے پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے ۔ جس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت جناب آصف علی زرداری کو جاتا ہے ۔ قارئین عام انتخاب نزدیک ہیں جس کے لیے پاکستان کا ہر سیاستدان ذہنی طور پر سیاسی طور پر اور عوامی طور پر متحرک بھی نظر آتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ زرداری صاحب جیسا سیاسی بازیگر جوتقریباً پانچ سالوں سے ہر محاز پر بازی لیتا آرہا ہے وہ اس نئے محاز پر جو انتخابات کی صورت میں درپیش ہیں اپنی پارٹی کے لیے کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں ویسے تو زرداری صاحب نے ایک تیر سے دوشکار کرتے ہوئے سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی حریفوں کو بھی حیدرآباد میں کامیاب جلسہ کر کے بتادیا ہے کہ پکچر ابھی باقی ہے۔