انسان جسطرح سوچتا ہے اگر ٹھیک اسی کی سوچ کے مطابق زندگی میں سب کچھ چلنے لگے تو پھر انسانی زندگی سے تمام مصائب و آلام کا پوری طرح خاتمہ ہو جائے اور انسان کسی طرح کی کوئی پریشانی میں مبتلا نہ ہو مگر ایسا نہیں ہوتا۔ انسان جو سوچتا ہے ہمیشہ انکی سوچوں کے مطابق واقعات رونما نہیں ہوتے بلکہ انکی سوچ کے برعکس ایسے واقعات بھی زندگی میں رونما ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے انسان کو زمانہ کے حوادث اور مصائب و آلام سے ٹکرانا پڑتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے انکی زندگی میں جدوجہد کا ایک طویل سلسلہ۔
عامر سلطان انہی نوجوانوں میں سے ایک تھا جس نے اپنی آنکھیں چھوٹے سے گاؤں کی ایک تنگ و تاریک جھونپڑی میں کھولی تھی جہاں تاریکی نے انکا استقبال کیا تھا اور جیسے جیسے وہ شعور وآگہی کی عمر میں پہنچتا گیا ویسے ویسے انکے ذہن و دماغ میں تفکرات و سوچ کی یلغار بڑھتی گئی۔ وہ راتوں کو کھلے آسمان تلے تاروں کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کا حساب کتاب کرنے لگتا تھا اور کبھی وہ اپنی کٹیا نما جھونپڑی کیطرف یاس بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا کہ آخر اسطرح کی گھٹ گھٹ کر زندگی کیسے گزرے گی؟
بوڑھے ماں باپ اور دو بہنوں پر مشتمل انکا یہ خاندان عامر سلطان کیلئے کڑی آزمائش سے کم نہ تھا وہ روز روز خدا
pray
سے دعا کرتا تھا کہ اے رب کائنات میری مشکلات کو آسان فرما۔
اسکی نظر جب بھی بوڑھے والدین کی آنکھوں میں پڑتی تھی وہاں انہیں یا سیت کی ایک لمبی لکیر کھنچی ہوئی ملتی۔ آخر وہ سوچتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنے اہلخانہ کو مصیبت سے نکالنا ہے اور اچھے مستقبل کی تلاش کرنی ہے تو جدوجہد کی شروعات کرنی ہو گی اور پھر اس نے کافی غوروحوض کیبعد یہ فیصلہ کیا کہ انہیں گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر ہاتھ پاؤں مارنے پڑیں گے تبھی جاکر انہیں کچھ آسانیاں میسر آ سکتی ہیں۔
اس سلسلے میں اس نے اپنے والدین سے بات چیت کی جس پر اسکے والدین نے سوچنے کیبعد رضامندی ظاہر کر دی اور اسطرح سے عامر سلطان ایک نئی امید اور نئی امنگ کیساتھ مستقبل کی تلاش میں شہر کیلئے توشہ سفر باندھ رہا تھا۔ شہر کیلئے وہ تو روانہ ہو گیا تھا مگر دوران سفر وہ یہ سوچتا رہا کہ ایک اجنبی شہر میں رہنے کا قیام کہاں ہو گا؟ اور اگر قیام کا بندوبست ہو گیا تو کام کیا کروں گا؟ اور اگر کام ملا بھی تو وہاں کے لوگ کیسے ہونگے؟ سوچوں کی ایک یلغار تھی جس کی کوئی انتہائی نہ تھی، انہی سوچوں کے دریا میں بہتے ہوئے آخرکار اسکا سفر اختتام کو پہنچا۔
شہر میں اس نے جونہی پہلا قدم رکھا تو وہاں کی رنگینیاں اور دلفریبیاں دیکھ کر اسکی آنکھیں چکاچوند ہو گئیں۔ چاروں طرف لوگوں کا ہجوم، ٹریفک کا شور ایک عجیب سا سماں پیش کر رہا تھا۔ اس نے آس پاس نگاہ دوڑائی تاکہ کچھ کھا پی کر توانائی محسوس کر سکے کیونکہ دوران سفر اس نے کچھ کھایا نہیں تھا جسکی وجہ سے اسکی بھوک کی شدت میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ اسکی نظر ایک درمیانے درجے کے ہوٹل پر پڑی جہاں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی اسکی نظر جب اشیاء خوردونوش پر پڑی اور اسکی اشتہاانگیز خوشبو کا احساس ہوا تو اسکی بھوک میں دوچند اضافہ ہو گیا۔
bar b q
وہ وہاں پہنچا کچھ کھا پی کر جب فارغ ہوا تو پھر اس نے نئے سرے سے کام کے بارے پلاننگ شروع کر دی۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ اسکے آگے ایک بزرگ شخص ہاتھ میں سوٹ کیس لئے چلا جارہا تھا کہ اچانک ایک بدمعاش اس پر جھپٹا اور اسکا سوٹ کیس چھین کر بھاگ نکلا۔ وہ بزرگ شخص شور مچانے لگے میری مدد کرو! میری مدد کرو! آواز سن کر عامر سلطان نے فوراً بدمعاش کیطرف دوڑ لگائی اور کافی جدوجہد کیبعد اسکو دھر دبوچا، ایک دو گھونسے اسکو رسید کیے تب جاکر وہ قابو میں آیا اور اس نے بدمعاش کو گھسیٹتے ہوئے سوٹ کیس سمیت بزرگ شخص کے سامنے لا پٹخا۔
تھوڑی ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی، پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بدمعاش کو گرفتار کر لیا۔
police arresting man
بزرگ شخص نے عامر سلطان کی بہادری دیکھ کر اسکی جرات کی تعریف کی اور کہا کہ بہت بہت شکریہ نوجوان کہ تم نے میرا بیگ لٹنے سے بچا لیا۔ عامر سلطان نے کہا اس میں شکریہ کی کیا بات ہے سر! یہ تو میرا فرض تھا۔ بزرگ شخص نے پوچھا تم یہاں کیا کرتے ہو؟ عامر نے جواب دیا کہ سر میرا پہلا دن اس شہر میں ہے ابھی تو یہاں پہنچا ہی ہوں، کام کی تلاش میں اب نکلوں گا۔ یہ سن کر اس بزرگ شخص نے کہا کہ کام کی تلاش ہے تو میرے پاس آ جاؤ انشاء اللہ کام مل جائیگا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ایک وزیٹننگ کارڈ اسکی طرف بڑھایا اور ایک رکشہ کو آواز دیکر روکا، رکشہ والے کو اپنی منزل کے بارے میں کہہ کر رکشہ پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔
آج کا دن اسکے لیے بہت ہی اہم تھا، اس لیے عامر سلطان صبح بہت جلدی بیدار ہوا اور پھر انٹرویو کیلئے آفس جانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ نہا دھو کر اس نے ناشتہ کیا اور صاف ستھرا لباس پہن کر وقت مقررہ پر آفس کیلئے روانہ ہو گیا۔ اسے اپنا مطلوبہ آفس ڈھونڈنے میں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑی، کیونکہ وزیٹننگ کارڈ پر درج پتہ کے مطابق وہ بہت آسانی سے ندیم خان ٹوائز پرائیویٹ کمپنی کے دفتر کے سامنے کھڑا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے گیٹ پر کھڑے گارڈ سے اپنا مدعا بیان کیا تو گارڈ نے اندر جانے کی اجازت دیدی۔
Well Decorated
وہ جب آفس میں داخل ہوا تو وہاں کی سجاوٹ اور ڈیکوریشن دیکھ کر دھنگ رہ گیا، اندر داخل ہوتے ہی اس نے کمپنی کے ڈائریکٹر ندیم خان کو سلام کیا۔ ندیم خان صاحب نے خندہ پیشانی سے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا یہاں پہنچنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوئی؟ اس نے کہا نہیں سر! کوئی دقت نہیں ہوئی۔ ندیم صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے اب یہ بتاؤ تمہاری کوالیفکیشن کیا ہے؟ اس نے جواب دیا سر میں نے بی اے کر رکھا ہے اور کچھ بیسک کمپیوٹر نالج بھی رکھتا ہوں۔ ندیم خان صاحب نے کہا اچھی بات ہے۔ اسکا مطلب ہے تم میری امید سے کچھ زیادہ ہی نکلے۔ چلو آج سے تمہیں ایک ذمہ دار تفویض کرتا ہوں، تمہارا کام یہ ہو گا کہ فیکٹری میں کام کرنیوالے مزدوروں کی نگرانی اور دیکھ ریکھ کرو گے نیز ان مزدوروں کیطرف سے کوئی شکایت موصول ہو یا مزدوروں کیطرف سے کوئی مطالبات ہو تو وہ سب باتیں مجھ تک پہنچاؤ۔ یہ کام میں نے تمہارے سپرد کر کے بہت اہم ذمہ داری تمہارے ذمہ سونپی ہے اور تمہاری قابلیت اور صلاحیت کا اندازہ تمہارے کام سے ہو گا۔
عامر سلطان نے کہا کہ شکریہ سر! میں اپنی طرف سے کسی طرح کوتاہی نہیں برتوں گا اور انشاء اللہ میں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا کر اپنی صلاحیت ثابت کر کے دکھاؤں گا۔ ویری گڈ! تمہارے حوصلے اور عزم کی میں داد دیتا ہوں نیز مجھے اطمینان ہو چلا ہے کہ واقعی ہمارا انتخاب غلط نہیں ہو گا، تم یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہو۔
اسطرح اس نے پہلے ہی دن سے آفس میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اتنی جلدی اتنے بڑے شہر میں اتنا اہم کام مل جانے کیبعد وہ کافی حد تک مطمئن ہو چکا تھا اور بار بار اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ کمپنی میں کام کرتے ہوئے اسے دو سال کا وقفہ گزر چکا تھا۔ اس دوران اس نے جس تندہی اور ایمانداری سے اپنے فرائض کو انجام دیا اس سے کمپنی کے ڈائریکٹر ندیم خان صاحب کافی خوش نظر آ رہے تھے، انکی کارکردگی سے خوش ہو کر بطور انعام کمپنی نے انہیں عارضی رہائش کیلئے ایک مکان دیدیا تھا۔
وہ مکان جس علاقہ میں تھا وہاں اچھی خاصی آبادی تھی۔ غریب، امیر اور متوسط طبقہ کے لوگ اس کالونی میں آباد تھے۔ انکے پڑوس میں ایک غریب فیملی قیام پذیر تھی جس میں دو بزرگ میاں بیوی ایک بیٹی اور ایک چھوٹے بیٹے کیساتھ قیام پذیر تھے۔ وہاں رہتے ہوئے اس فیملی سے عامر سلطان کی جان پہچان ہو گئی اور وہ ان سے کافی خندہ پیشانی سے ملتا تھا اور اگر انکی کوئی پریشانی ہوتی تھی تو انہیں وہ حتی الامکان دور کرنے کی سعی کرتا تھا۔ پڑوسی ہونے کے ناطے انکے گھر آمدورفت لگی رہتی تھی۔ اس بیچ اسکی نظر میں گھر میں بیٹھی ہوئی جوان بیٹی پر پڑتی اور وہ سوچتا کہ اسکے ماں باپ اس کی شادی کیوں نہیں کر دیتے۔ لڑکی کی عمر تو بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے بارے میں اس نے اس کے ماں باپ سے ایک بار دبے لفظوں میں پوچھنے کی کوشش کی تو لڑکی کے باپ بدرالدین صاحب نے کہا کہ کیا کروں بیٹا اپنی بیٹی کی فکر تو مجھے بھی ستا رہی ہے البتہ میرے پاس اتنی رقم نہیں کہ میں اسکی شادی کسی اچھے گھر میں کرا سکوں۔
عامر سلطان آج جب کام پر پہنچا تو بہت متفکر دکھ رہا تھا اور بار بار اسے بدرالدین صاحب کی بے بسی اور بیچارگی پریشان کر رہی تھی، کام کے دوران بار بار وہ اسی کیفیت میں مبتلا رہا۔ آخر کار وہ ایک نتیجہ پر پہنچا اور اس نے سوچا اگر اس بوڑھے ماں باپ کو چند لمحوں کی خوشیاں مل جائیں تو انکی زندگی کے کچھ لمحات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس نے فیصلہ لیا کہ انکی پریشانیوں کا ازالہ کر کے رہیگا اور انکی آنکھوں میں پھیلی ہوئی کرب کی دھند کو ہٹا کر ہی دم لیگا۔ چنانچہ عامر سلطان نے اپنے ماں باپ سے اپنی شادی کے بارے میں بات کی تو اسکے والدین نے کہا کہ بیٹا ہمیں تم پر پورا اعتماد ہے تم جو کرو گے صحیح کروگے۔ ہمیں تمہاری تربیت میں فخر ہے اور پورا پورا یقین ہے۔
اپنے ماں باپ سے بات کرنے کیبعد انکے ذہن سے وہ سارے خدشات و شبہات یکسر مٹ گئے جو بات کرنے سے قبل اسکے ذہن ودماغ میں منڈلا رہے تھے۔ آخرکار اس نے اپنی شادی کے بارے میں بدرالدین صاحب سے اشارہ کنایہ میں یہ بات کہہ بھی ڈالی۔ یہ سن کر بدرالدین صاحب کافی حیرت زدہ ہو گئے اور کافی دیر تک وہ خواب و حقیقت کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے پھر انہیں عامر نے کہا کہ انکل میں نے آپکے سامنے صرف بات رکھی ہے۔ آپ کو پورا پورا اختیار ہے آپکو بہتر لگے تو ٹھیک ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرالدین صاحب نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا نہیں بیٹا، ایسی بات نہیں تم تو فرشتہ صفت انسان ہوں، تمہارے اندر خامیاں ڈھونڈ کر بھی کوئی نہیں نکال سکتا مگر بات یہ ہے کہ میری حیثیت تمہارے بالمقابل بہت ہی معمولی ہے پھر میں تمہارے بارے میں کیسے ایسے خواب دیکھ سکتا ہوں۔
ایسا مت سوچئے انکل! مجھے دولت وامارات کا کوئی شوق نہیں، ہمیں تو آپکے خاندان کیطرف سے برتے گئے اخلاق سلیقہ مند رہن سہن کے طور طریقے نے گرویدہ بنا لیا ہے اور بھلا اخلاق و کردار کی دولت سے بڑھ کر بھی کوئی دولت ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ اپنے اندر سے احساس کمتری کو بالکل ختم کر لیں اور میری باتوں پر سنجیدگی سے غور کر کے فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹا! میں اپنی بیوی اور بیٹی سے پوچھ لوں پھر بتاؤں گا۔ آخر کار وہ وقت آ ہی گیا جب بدرالدین صاحب نے حامی بھرلی اور اسطرح سے عامر سلطان کی شادی نہایت سادگی مگر شان وشوکت سے ہوئی اور عامر سلطان اپنی نویلی نویلی دلہن نازنین کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
Pakistani Wedding
شادی کیبعد وہ اپنی بیوی کو لیکر گاؤں پہنچے تو انکے ماں باپ نے انکا شاندار استقبال کیا اور اپنی بہو کو دیکھ کر دونوں نے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ عامر کی بہنوں نے بھی اپنی بھابھی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور انکی خوب تعریف کی۔ عامر نے شادی سے قبل جتنا سوچا نہیں تھا اس سے زیادہ اللہ نے انکو عطا کر دیا۔ انکی بیوی انکے لیے بہت ہی خوش قسمت ثابت ہوئی۔ نازنین نے نہ صرف انکے گھر والوں کا دل پوری طرح جیت لیا بلکہ اسکی آمد نے عامر سلطان کی تقدیر ہی بدل دی اور اسطرح سے انکی زندگی سے وہ تاریک ماضی کا باب کافی پیچھے چلا گیا۔ اس تبدیلی اور خوشحالی پر وہ اپنے رب کا جتنا بھی شکر کرتا وہ کافی کم تھا۔