پاکستان کا المیہ یہ ہے اس میں دنیا بھر کے سارے دھشت گرد جمع ہو گئے ہیں جو اس ملک کی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ بم دھما کوں اور خود کش حملوں کا بنیادی مقصد مملکتِ خدادا دکے پورے نظام کو مفلوج کرنا ہے ۔ابھی کل کی بات ہے کہ جمرود کی ایک مسجد میں خود کش حملے سے پچاس مسلمان شہید ہو گئے اور سو سے زیادہ لوگ ذخمی ہو گئے۔ اس طرح کی دھشت گردی کی کاروائیاں روز مرہ کا معمول ہیں جس نے شہریوں کے اندر عدمِ تحفظ کا احساس پیدا کر رکھا ہے ۔کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی دھشت گردی کا ایک نیا رنگ ہے جس کا ڈانڈے بھی اسی افغان جنگ سے جڑے ہوئے ہیں جو ١٩٧٩ میں روس کے خلاف شروع کی گئی تھی ۔اُس افغان جنگ میں ہم نے جنھیں مجاہدین کہہ کر دنیا سے متعارف کروایا تھا اب وہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ اُس وقت سو و یت یونین کی جارحیت کے خلاف اُن کی جراتوں کے گیت گائے گئے تھے انھیں سورمے اور بہادر بنا کر پیش کیا گیا تھا اور انھیں سو ویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ حالانکہ سب کو علم ہے کہ وہ جنگ کس نے لڑی تھی ، کیسے لڑی تھی اور فتح یابی کے لئے کون سی حکمتِ عملی اختیار کی گئی تھی ۔جب تعریف و تو صیف اپنی حدوں سے تجاوز کر جائے اور مبالغہ آرائی جھوٹ کا لبادہ اوڑھ لے تو پھر تھوڑا سا خراج بھی دینا پڑتا ہے اور آج کے افغا نی وہی خراج مانگ رہے ہیں۔ سوویت یونین کے بعدا فغانیو ں کے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا ، ہر طرف بھوک ننگ اور بد حالی کا دور دورہ تھا لہذا مجا ہدین نے پاکستان میں کلاشنکوف، ہیروئن، قتل و غارت گری اور دھشت گردی کے کلچر کو متعارف کروایا اور جی بھر کر دولت اکٹھی کی۔عجیب اتفاق ہے کہ وہ مہاجرین جنھیں پاکستان نے مشکل وقت میں پناہ دی اور ان کی معاونت اور دلجوئی کی وہی افغانی پاکستان کا شیرازہ منتشر کرنے اور اس پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور انکے اس مشن میں پاکستان کی مذہبی جماعتیں ان کی ہمنوا بنی ہوئی ہیں اور گلے پھاڑ پھاڑ کر ان کی عظمتوں کے گیت گا رہی ہیں اور انھیں اسلامی مجاہد کہہ کر پکار رہی ہیں حالانکہ افغانستان کی جنگ کسی بھی پہلو سے جہاد کے معیار پر پوری نہیں اترتی کیونکہ اس میں سب سے بڑا کردار تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا تھا اور امریکی اشیر واد سے لڑی جا نے والی جنگ جہاد کیسے بن سکتی ہے۔ سال ہا سال تک پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے لوگ آج پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔نمک حرامی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس ملک نے افغانیوں کو روس کی یلغار سے بچایا تھاآج وہی افغانی اس ملک کے عوام کو خود کش حملوں اور دھماکوں سے اڑا رہے ہیں اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں۔ پاکستان کسی غیر ملکی کیلئے جائے پناہ نہیں ہے یہ ملک اس کے باسیوں کا ہے اور اس وطن کے باسی کسی ایسے گروہ کی جو ان کی سالمیت اور بقا کا دشمن ہو حمائت نہیں کر سکتے۔ امریکہ سے افغانیوں کو دشمنی ہے تو وہ امریکہ سے اپنا حساب چکتا کریں، بے گناہ پاکستانیوں کو بارود سے کیوں اڑا رے ہیں۔ کارپٹ بمباری تو امریکنوں نے کی تھی لہذا افغانیوں کا ھدف بھی امریکہ ہی ہو نا چائیے تھا لیکن وہاں تک توبہت سی و جو ہات کی وجہ سے ان کی رسا ئی نہیں ہو رہی لیکن وہ قوم جس نے بد تریں حالات میں افغانیوان کی مدد کی تھی افغانی اسی قوم میں بد امنی کو ہوا دے کر ملک میں خا نہ جنگی کو ہوا دے رہے ہیں ۔کراچی کی بد امنی کے پیچھے بہت سے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ سب سے قوی عنصر افغانیونیوں کے کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کا بھی ہے ۔اسلحے کی دھڑا دھڑ ترسیل نے موجودہ خانہ جنگی کی ٹھوس بنیادیں رکھنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ سوڈانی، چیچن،یمنی۔ازبک اور افغانی مجاہدین جہاں بھی گئے ان ممالک کا بیڑا غرق کیا۔ ان کا واحد مقصد پناہ دینے والے ممالک میں بد امنی اور انتشار کو فروغ دینا ہے جسے وہ جہاد کے نام سے تعبیر کر کے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔پاکستان کا سب سے بڑا قصور یہی ہے کہ اس نے بے یارو مدد گار افغانیوں کو اس وقت پناہ دی تھی جب کو ئی ان کا پرسانِ حال نہیں تھا لیکن انھوں نے جس طرح کا سلوک پاکستان کے ساتھ روا رکھا ہے اس نے دوستی اور احسان کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ ان لوگوں کی حرکات کی وجہ سے ان کے اپنے ملک کے عوام بھی ان کو پسند نہیں کرتے جس کا واضح اظہار اس وقت دیکھنے کو ملا جب سعودی عرب نے نے اسامہ بن لادن اور اس کے ااہل و عیال کو کو قبول کرنے سے انکار کردیاتھا اور اس کے اہل و عیال کو اپنے ملک میں پناہ دینے سے معذرت کر لی تھی۔اب یہ سارے کے سارے افراد پاکستان کا اثاثہ ہیں اور پاکستان کونہ چاہتے ہوئے بھی ان کا بوجھ اٹھا نا ہو گا۔ فرض کریں کہ پاکستان بھی انھیں پناہ دینے سے انکار کر دیتا تو پھر سوچئے اِن لوگوں کا ٹھکانہ کہاں ہو گا۔ افغان دھشت گردوں کے بغیر پاکستان میں قیامِ امن ناممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کا قلع قمع کیا جائے، ان دھشت گردوں کے انخلا کے بغیر پاکستان میں امن نا ممکن ہے۔ تحریکِ طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی شریکِ جرم سمجھا جائے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو ایسن دھشت گرد عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور انھیں اخلاقی امداد بہم پہنچا رہے ہیں۔پاکستان کے لوگ امن پسند لوگ ہیں کیونکہ ان کے قائد نے پر امن جدو جہد سے تخلیقِ پاکستان کا معجزہ سر انجام دیا تھا۔ ، مصورِ پاکستان ڈاکڑ علامہ ہ محمد اقبال نے تصورِ خودی سے ان میں انسانی اوصاف کی جلا میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا بر ملا اظہار کیا تھا لہذا یہ ممکن نہیں کہ پاکستانی عوام دھشت گردی کی اس جنگ میں مخصوص مذہبی جماعتوں کے آلہ کار بن سکیں۔وہ دھشت گردوں سے کل بھی نفرت کرتے تھے آج بھی نفرت کرتے ہیں اور آئیندہ بھی نفرت کرتے رہیں گے کیونکہ امن سے محبت ان کے خمیر میں ہے اور یہ محبت اسلام کے اجلے دامن قائد کی بے مثال جدو جہد اور علامہ اقبال کی آفاقی شاعری سے ان کی ذات میں پیدا ہو ئی ہے۔ عزیزانِ من آئو میری آواز میں آواز ملا کر وطن کے ان جوانوں کو خراجِِ تحسین پیش کر یں جنھوں نے دھشت گردی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اپنی جوانیوں کا خراج دیا۔ فوج کے وہ جوان جنکی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں ، جنھوں نے ابھی زندگی کی بہت سی بہاریں دیکھنی تھیں ، ملک وقوم ک خدمت کرنی تھی، اپنی جراتوں سے پاکستان کی حفاظت بھی کرنی تھی اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے پاک وطن کے علم کو سر بلند کرنا تھا دھشت گردی کی اسی آگ کو بجھاتے بجھاتے خود اس آگ میں بھسم ہو گئے ہیں۔کتنا صبر ہے ان کے ا ہلِ خانہ میں کہ وہ اپنے لختِ جگروں کی قربا نی دے کر پاک وطن کی سلامتی کو یقینی بنا رہے ہیں اور اس پر فخر و ناز بھی کر رہے ہیں ۔ اپنے پیاروں کے لاشے ا ٹھانا بڑا مشکل کام ہے لیکن میرے وطن سے محبت کرنے والے یہ دیش پر یمی جانوں کا مذرانہ دے کر اپنا یہ فرض پورا کر رہے ہیں۔ آئیے ان کی عظمتوں کو سلام پیش کریں کہ انکا لہو ہی ہماری بقا اور سلامتی کا ضامن ہے اور مجھے قسم ہے جوانوں کے بہتے لہو کی سرخی کی کہ مجھے اپنے وطن کی سلامتی کی راہ میں حائل ہونے والی ہر دیوار کو گرا نا ہے اور آخری دھشت گرد کے خاتمے تک ان کا پیچھا کرنا ہے کیونکہ میرے وطن کے معصوموں کا لہو مجھے پکار رہا ہے اور انسانیت کے ان دشمنوں کے خاتمے کیلئے مجھے آوازیں دے رہا ہے۔مجھے اپنے پیاروں کی ان آوازوں پر لبیک کہنا ہے اور اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا نا ہے۔ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہمارے پیاروں نے دھشت گردی کی جنگ میں جسطرح اپنا لہو بہایا ہے اس پر ہمیں فخر ہے۔ ہمیں امن کی خاطر انکی جلائی ہوئی شمع کو اپنے لہو سے روشن ر کھنا ہو گا ۔ سچائی کی راہ میں جانوں کا نذرانہ دینے والے شہید کہلایا کرتے ہیں اور قومیں اپنے ان سپوتوں کو عزم و احترام سے رخصت کیا کرتی ہیں۔۔صلہِ شہید کیا ہے تب و تاب و جاودانہ۔۔اسی عزت احترام اور محبت کا اظہار ہے۔ ابتلائوں اور آزمائشوں میں بڑے بڑے سورمائوں کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں لیکن آفریں صد آفریں ہے پاک فوج کے جوانوں پر جو موت کو سامنے دیکھ کر بھی اس سے پنجہ آزمائی کرتے ہیں تا کہ مملکتِ خدا داد کی سلامتی پر کوئی حرف نہ آئے۔ کراچی نیول پر جب دھشت گرد وں نے حملہ کر دیا تھا تو یاسر حمید سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ان کے مکروہ عزائم کے سامنے ڈٹ گیا تھا۔ کیا اسے زندگی پیاری نہیں تھی ؟کیا وہ اپنے والدین بھائی بہنوں اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہونا چاہتا تھا؟ا س کے سینے میں ارمان بھی تھے، چاہتیں بھی تھیں، ولولے بھی تھے اور آرزئو یں بھی تھیں جن کی خاطر وہ بھی جان بچا کر بھاگ سکتا تھا لیکن اس نے ذلت کی زندگی پر شہادت کو ترجیح دی ۔اس نے اس مٹی کی حرمت اور قوم کی عظمت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔اس قوم کا ایک ایک فرد یاسر حمید کی جراتوں پر رطب السان ہے اور اس کا مقروض ہے کہ اس نے اپنی جان کی قربانی سے ہمین زندگی عطا کی۔ہماری زندگی یاسر حمید جیسے شہیدوں کی مرہونِ منت ہے وگرنہ دھشت گرد تو ہمار ے گلوں میں غلامی کے پٹے ڈال کر ہما را نجانے کیا حشر کرتے۔ وہ مذہب کے نام پر ہمیں ذبح کر دیتے اور ہماری آزا ی اور ہماری ترقی کا خون کر دیتے۔ خون خون کا کھیل کھیلتے ہوئے دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے ۔جمیل الدین عالی کے شہرہ آفاق گیت۔۔ اڑ کے پہنچو گے تم جس افق پر ساتھ جائے گی آواز میریَ اے شجاعت کے زندہ نشانو میرے نغمے تمھارے لئے ہیں میں جب ملکہ ترنم نور جہاں کی مدھر اورسریلی آواز شامل ہو کر فضائو ں کو معطر کرتی ہے تو وہ پوری قوم کی آواز بن جاتی ہے کیونکہ قوم اپنے جوانوں سے محبت کرتی ہے،ان کی جراتوں پر انھیں ہدیہِ تبریک پیش کرتی ہے اور ان کی قربانیوں پر ان کی احسان مند ہوتی ہے کیونکہ یہ ان کی قربانیاں ہی تو ہیں جو ہماری سلامتی کی ضامن بنتی ہیں وگرنہ بہت سے بھیڑیے تو ہمیں کب سے غلام بنانے اور ہمارے و جود کو مٹانے کے درپہ ہیں۔ وہ لوگ جو صبح شام یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ دھشت گردی کی یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی نظر میں وطن کے جوانوں کی قربانیوں اور شہادتوں کی کو ئی اہمیت نہیں ہے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وطن کے جوان یہ قربانی کسی غیر ملکی طاقت کی خوشنودی کی خاطر دے رہے ہیں۔ کتنا نا بڑا بہتان ہے جو یہ لوگ میرے وطن کے شہیدوں پر باندھ رہے ہیں اور ان کی قربانی کو شہادت کے اعزاز سے محروم کرنے کے در پہ ہیں۔ کاش ایسے لوگ وطن کی مٹی کی حرمت سے آگاہ ہوتے کاش وہ راہِ وطن میں بہنے والے خون کے تقدس سے با خبر ہوتے۔کاش کوئی ا نھیں بتا تا کہ وطن کی راہ میں بہنے والے لہو کا ایک ایک قطرہ مقدس ہے اور ہماری آزادی ،استحکام ،بقا اور مضبوطی کا ضامن ہے۔مذہب پرست جماعتوں اور شدت پسندوں کی ایسی ہی سطحی اور غیر حقیقی سوچ کی وجہ سے انھیں ہمیشہ عوامی عدالت میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ عوامی سوچ کا ساتھ د ینے کی بجائے غیر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرتے ہیں جسے عوام مسترد کر دیتے ہیں لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ پھر بھی عقل اور شعور سے کام نہیں لیتے اور اپنی باطل سوچ پر اڑے رہتے ہیں ۔ تحر یکِ پاکستان میں بھی تو انھوں نے ایسے ہی غیر حقیقی رویوں کا مظاہرہ کیا تھا اور منہ کی کھائی تھی اور انشا اللہ اب بھی شکست ایسے عناصر کا مقدر ہو گی کیونکہ فریب اور جھوٹ کو کوئی شکست سے بچا نہیں سکتا اور سچ کی جیت کے آگے بند باندھنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا اور سچ یہی ہے کہ دھشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور دھشت گردوں کو شکست دینا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ تحریر : طارق حسین بٹ