کراچی (جیوڈیسک) قومی سانحہ پر کراچی میں ہر طرف اداسیوں کے ڈیریہیں، آگ کا دریا سب کچھ فنا کر گیا۔ 289گھرانوں میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔ چھتیس گھنٹے بعد بھی لواحقین پیاروں کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تہہ خانے میں تپش کے باعث پہنچنا مشکل ہو گیا، یہاں مزید لاشوں کی موجودگی کا خدشہ ہے۔فیکٹری میں آگ بجھانے کے مناسب حفاظتی انتظامات تھے اور نہ ہی ہنگامی حالت اخراج کے لئے کوئی راستہ موجود تھا۔ منیجر نکلنے کا راستہ بند کر کے فرار ہو گیا۔ اندر پھنسے لوگوں کے پیارے عمارت کے باہر بے بس و مجبور کھڑے ہیں۔
آگ نے فیکٹری کے تہہ خانے کو خوفناک حد تک گرم کر دیا۔ حدت کم کرنے کیلئے ڈالا جانے والا پانی بھی کھولنے لگا۔ تیس گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی تک کھولتے پانی کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکا۔ دھواں اور پانی بھر جانے سے کئی افراد دم توڑ گئے۔ کئی ملازمین نے جانیں بچانے کے لئے کھڑکیوں اور چھت سے چھلانگیں لگا دیں۔ شعلے ایسے لپکے کہ غر یب ورکر جل جل کر کوئلہ بنتے رہے۔ فیکٹری کے درو دیوار توڑ کر راستہ بنایا گیا۔
کئی گھنٹوں کے بعد جب آگ کچھ ٹھنڈی ہوئی تو فیکٹری کے اندر مناظر دلوں کو دہلا رہے تھے۔ ہر طرف جلے ہوئے انسانی جسم کسی قیامت کی خبر دے رہے تھے۔ بیس مسخ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے نمونے حاصل کر لئے گئے۔ فیکٹری ملازمین کا حاضری رجسٹر تحویل میں لے لیا گیا جبکہ محکمہ محنت کے دو افسروں کو معطل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔