سب کا پالنہار ہے مولا

” سورہ الھود”
ترجمہ:
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر ( یہ کہ) اسکا رزق اللہ ( کے ذمہ کرم ) پر ہے اور وہ اسکے ٹھہرنے کی جگہ اور اسکے امانت رکھے جانے کی جگہ کو ( بھی ) جانتا ہے۔ ہر بات کتاب روشن ( لوح محفوظ ) میں درج ہے۔

تشریح و توضیح
سورہ ھود کی چھٹی آیت مبارکہ سے بارہویں پارے کا آغاز ہو رہا ہے جس میں اللہ رب العزت نے کائنات کو اپنے علم، اپنے اختیار اور اپنی ربوبیت کاملہ سے متعارف فرمایا ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ انسان تو انسان رہے ہر مخلوق کیلئے رزق اور اسکی ضروریات کا کفیل ہے۔

sheaps

sheaps

وہ ہر شے کے مستقر اور اسکے امانت رکھے جانے کی جگہ کو بھی اور اس عالم کی ضروریات کو بھی جانتا ہے۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ:
زمین میں چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمہ کرم پر نہ لیا ہو۔

” دب یدب ” چلنے کو کہتے ہیں تو دابة( دابتٍََ) کا معنی بنا ” مایدب علی الارض” جس چلنے والی مخلوق کا تعلق زمین کیطرف ہو اسکو دابہ کہتے ہیں۔ خواہ وہ انسان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیوان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چرندے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرندے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درندے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گزندے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب کے سب ” دابة ”(دابتٍ) کہلاتے ہیں۔

ایک اشکال کا ازالہ
یہاں اک سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ یہاں اللہ نے دابة الارض ( دابت الارض) کا ذکر فرمایا ہے کہ باقی کسی مخلوق کا ذکر نہیں کیا تو اسکی وجہ یہ ہے کہ دابة الارض ( دابت الارض) ہمارے مشاہدے میں ہیں۔

اس لیے عقلی دلیل کے طور پر اللہ نے ہمیں اپنے رازق ہونے کی دلیل دی ہے ورنہ ہر ہر مخلوق کا خالق بھی وہی ہے۔ رازق و مالک بھی وہی ہے۔ ہر کسی کو اسکی ضرورت اور اسکے تقاضے کے مطابق رزق دینا بھی اسی کی شان ہے۔

دیکھیں ایک بچہ جن جن تدریجی مراحل سے گزرتا ہے اسکے ہر ہر دور کا ایک علیحدہ تقاضا ہے اور تمام تر تقاضے وہی پروردگار پورے کرتا ہے۔
مثلا بچہ اگر مادہ تولید کی صورت میں باپ کی پشت میں ہے تو اسکے تقاضے کچھ اور ہیں۔ ماں کے رحم میں آیا تو اسکے تقاضے کچھ اور ہیں۔ اسکے بعد پیدائش تک کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

baby in mother-s womb

baby in mother-s womb

الغرض ہر ہر دور میں اسکے رزق کے جتنے تقاضے تھے وہ تمام کے تمام وہی پروردگار پورے کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ چونکہ میں رب العالمین ہوں لہٰذا ہر ہر مخلوق کے ہر ہر دور میں، اسکے رزق کا ذمہ دار میں ہوں۔

اب اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ بندہ اسی عبادت پر انحصار کر کے اسباب رزق کی تلاش بھی ختم کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں بلکہ وسائل رزق اختیار کر کے نتیجہ خدا پہ چھوڑ دو اور فکر آخرت کا ہمیشہ خیال رکھو۔

وہ بندہ کتنا بیوقوف ہے جو رزق کی فکر تو کرے مگر اسے اپنی بخشش کی کوئی فکر نہ ہو۔
حالانکہ رزق کا وعدہ تو خدا نے کر لیا ہے مگر بخشش کا وعدہ نہیں کیا۔
خدا کو بھول گئے ہیں لوگ فکر روزی میں
خیال رزق تو ہے رازق کا کچھ خیال نہیں
ثابت ہوا کہ بندے کو ہمیشہ اپنے رزق کی بجائے اپنی بخشش کی فکر لگی رہنی چاہیے۔

کیا خدا پر رزق دینا واجب ہے؟
پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیں کہ ہر جاندار چاہے وہ چھوٹا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑا ہو۔۔۔۔۔ مذکر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ مونث ہو۔۔۔۔۔۔ صحیح سلامت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیب دار ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جاندار کے رزق کو اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے لیکن اللہ رب العزت پر کسی نے یہ ڈیوٹی نہیں لگائی اور نہ ہی کوئی لگا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی کسی نے اسکو یہ حکم دیا ہے کہ تو ایسا کر! نہ اللہ پر فرض ہے کیونکہ اس پر کوئی چیز فرض نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے مخلوق کا رزق، اپنے ذمے لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے فضل سے اس نے ایسا کہا ہے۔

اللہ نے رزق کے اپنے ذمہ کرم پر لینے کا لفظ اس لیے فرمایا ہے تاکہ مخلوق کو یقین ہو جائے کہ وہ خدا جو ساری کائنات کا خالق و مالک ہے وہ ہمارے ساتھ کیے ہوئے وعدے ضرور پورے کریگا۔

قرآن میں کسی جگہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنی روزی کی فکر کرو بلکہ فرمایا روزی کی فکر تم نہ کرو کیونکہ یہ میرے ذمہ کرم پر ہے بلکہ اس کام کی فکر کرو جو تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہاری پیدائش کا مقصد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہاری تخلیق کا باعث اور تمہارا مقصد حیات ہے اور وہ ہے میری عبادت، میری بندگی۔ کیونکہ
ترجمہ:
ہم نے تمام جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔

انسان کی دو قسمیں:
حدیث میں آتا ہے۔
ترجمہ:
جو اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اسکا ہو جاتا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اسنان دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو رزق کے پیچھے بھاگتے ہیں اور روٹی انکے آگے آگے بھاگتی ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جو آگے آگے دوڑتے ہیں اور روٹیاں انکے پیچھے پیچھے بھاگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں ضرورت ہی نہیں ہوتی وہ بے نیاز ہوتے ہیں۔

data darbar

data darbar

مثلا آپ دیکھیں جتنے بھی اللہ کے نیک اور پاک بندے ہیں، اولیاء کرام اور علماء کرام، رزق ان پہ عاشق ہوتا ہے اور رزق اپنی سعادت سمجھتا ہے کہ میں انکے پاک منہ میں جاؤں۔

رزق انکو تلاش کرتا پھرتا ہے وہ رزق کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ جتنے انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے کسی نے وعظ اور تبلیغ پہ اجرت نہیں لی اور نبیوں پر بغیر معاوضے اور اجرت کے تبلیغ فرض ہے۔ انکی ڈیوتی اللہ تعالیٰ یہ لگاتا ہے کہ تم تبلیغ کرو اور تمہارے جتنے معاملات ہیں انکی ذمہ داری میں نے اپنے ذمے لے لی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام فکر معاش سے آزاد تھے اگرچہ ذرائع اور وسائل اختیار کرنا یہ زندگی کیلئے ایک لازمہ ہے لیکن نتیجتا توکل کا مفہوم ذہن میں رکھنا چاہیے۔ توکل یہ بھی نہیں کہ بالکل بے دست وپا ہو کر بیٹھ جاؤ کہ روزی اللہ تمہارے منہ میں ڈال دیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ روزی کے اسباب تلاش کر کے نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دو یہ توکل ہے۔

اسباب رزق کی حقیقت
یہ مت سمجھو کہ جو روزی مجھے مل رہی ہے وہ کارخانے کیوجہ سے مل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دکان کی وجہ سے مل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا زمین کی وجہ سے مل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں کیونکہ بڑے بڑے دکاندار، کارخانہ دار، اور زمیندار ایسے ہیں کہ محنت کے باوجود جن کا دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

نہ زمین کام آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ دکان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کارخانہ کام آتا ہے۔ جو لوگ محض اس مخمصے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان سے پوچھو روزی کون دیتا ہے؟ تو پھر آپ اس یقین پر پہنچیں گے کہ وہ جس کو چاہے وسیع رزق دیتا ہے اور جس کو چاہے اسکا رزق تنگ کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چاہے تو کسی کو اسکے کاروبار سے رزق دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی دکانیں اور کارخانے بنا کے بھی پریشان رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے اسباب کے مطابق اسکو رزق نہیں ملتا۔ یہ اس کی حکمتیں ہیں۔

درس: حضرت سعید احمد مجددی