سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اوربلوچ نیشنل پارٹی(بی این پی) کے بانی سربراہ سردار عطاء اللہ خان مینگل ایک زیرک اور منجھے ہوے بلوچ رہنما اور بلوچستان کی سیاست کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام ہیں۔ان کی باتوں سے اختلاف کرنا کسی ذی شعور کے لئے نہایت مشکل امر ہے۔و ہ ایک جانب سچے قوم پرست ہیں تو دوسری جانب وہ پاکستان کے بھی مخالف نہیں ہیں۔حالات کی ستم ظریفی بلوچوں کو کنارے لگا رہی ہے۔ جس میں ہماری سیول اور فوجی بیوروکریسی برابر کی شریک ہیں۔سردار عطاء اللہ بلوچستان میں خاص طور پر فوجی بیورو کریسی کے ظالمانہ رویوں کے مخالف ہیں۔جس کی وجہ آئے دن بلوچ نوجوانوں کو اغواکیا جانا، ان کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا ، اور آئے دن کی ٹارگیٹ کلِنگ ہے۔پاکستان کے اونچے ایوانوں میں بیٹھے نام نہادبلوچ نے ان سے معافی تو مانگی مگر ان کے لئے کچھ نہیں کیا ۔بلوچوں کے احساسِ محرومی کا رونار بھی رویا مگر کبھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔جھوٹے وعدوں سے بلوچوں کو بہلایا نہیں جا سکتا ہے۔ان کے معاملات سلجھانے کے جھوٹے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بلوچوں کی غمناک کہانی کا آغاز امریکہ کے حقیقی غلام پرویز مشرف نے کیا تھا۔کئی خطر ناک واقعات اس کے دور میں بلوچستان میں پید کئے گئے۔جن میں ایک ڈاکٹر کا فوجیوںنے اغواکے بعد ریپ کیا ،26 اگست 2006 کو اکبر بکٹی کا قتل اور اسی قسم کے بہت سے واقعات ہوتے رہے مگر نہ تو ہمارے سیاست دانوں میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت تھی اور نہ ہی بیوروکریسی اسُے ان واقعات سے روک سکی۔جب عطاء اللہ مینگل نے ستمبر2006 میںپرویز مشرف کے بہیمانہ کارناموںکے خلاف سندھ میں لونگ مارچ کرنے جا رہے تھے تو پرویز مشرف نے ان کے 700 ساتھیوں کے ہمراہ اُنہیںبھی گرفتارکر کے جیل میں ڈالدیا۔9 ،مارچ2008کو انہیں رہا کیا گیا اور ان کے خلاف بنائے جانے والے تمام مقدمات بھی حکومت سندھ نے واپس لے لئے ۔اسکے ساتھ بلوچستان حکومت نے بھی ان کے بیٹے اختر مینگل کے خلاف جوجھوٹے مقدمات بنائے تھے واپس لے لئے اور انہیں بھی رہا کر دیا گیا۔ 20 دسمبر2011کو سردار عطا اللہ مینگل سے مسلم لیگ ن کے سر براہ نواز شریف نے کراچی میںملاقات کی تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے تحفظات بیان کیئے ۔ جن کو میاں نواز شریف نے بالکل جائز قرار دیا۔ اور کہا کہ اکبر بکٹی کے قاتلوں کا احتساب کیا جانا ضروری ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں خود بلوچ نوجوانوں سے بات کروں گا۔سردار عطاء اللہ مینگل کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پنجابی فوج بلوچوں کے خلاف ایسے غیر انسانی سلوک اور زیادتیاں کر رہی ہے جس کی بنا پر بلوچستان کے لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ رویہ بلوچوں کو اور بلوچستان کو نو رٹرن پوائنٹ پرلے آیا ہے۔جب ان سے بلوچ نو جوانوں کو غیر مسلح کرانے کے لئے کہا گیا تو نواب صاحب کا جواب تھا کہ جوانوں کو غیر مسلح کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔کیونکہ بلوچوں کو طاقت کے بل پر ختم کیا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے بلوچ نو جوان پہاروں کا رخ کر رہے ہیں۔ایک امید کی کرن مجھے یہ دکھائی دیتی ہے کہ اگر سنجیدگی کے ساتھ آخری کوشش کی جائے تو امید کی جا سکتی ہے ۔ بلوچ نوجوانوں کو اسلام آباد کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں پر بات کی جانی چاہئے۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے ن لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف سے کراچی میں ملاقات کے بعد جس طرح اظہار یکجہتی کیا اور اُن کے موقف کی جس طرح مکمل حمایت کا اعلان کیا،اس سے لگتا ہے کہ نوازشریف اقتدار میں آنے کے بعد واقعی بلوچوں کے مسائل پر بھر پور توجہ دیں گے اور ان کے جائز مسائل کو واقعی حل بھی کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم نے بلوچوں کی ناراضگی تو مو لی ہوئی ہے ۔مگردیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل کی ایجنسیاں بھی اس کھیل میںبھر پور کردارادا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔جن کا قلع قمع کرنا ہماری فوجی بیوروکریسی کی ذمہ داری بنتی ہے۔بلوچوں کے بجائے اپنے ان کھلے دشمنوں کا خاتمہ کرنا ہم سب کے ذمہ داری ہے۔جس سے ہم سب نے نظریں چرائی ہوئی ہیں۔ بی این پی کے موجودہ صدر سینیٹر عبدالمالک اور میر حاصل خان بزنجو سے کوئٹہ میں ملاقات کے بعد ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے پریس کانفرنس میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز دیتے ہوے نے کہا ہے کہ مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے تو بلوچستان میں کوئی باغی کیوں بنے گا؟بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کی محرومیوں کا حقیقی معنوں میں علاج کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ماضی کی آل پارٹیز کانفرنس کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ اُس میں بلوچستان کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا!!!جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچوں کے منڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا،ہم بہت کچھ گنوا چکے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی نواز شریف نے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ طلال بکٹی سے ملاقات کے بعد کہا کہ خروٹ آباد کے ذمہ داروں کے خلاف حکومت نے کچھ نہیں کیا۔صدر اور وزیر اعظم اسلام آباد میں بیٹھنے کے بجائے بلوچستان کے مسئلے کا حل نکالیں۔بلوچ باغی نہیں ہیں اگر وہ باغی بنے تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت سے بلوچستان کے لوگوں کو بہت امیدیں تھیں مگر جب سے یہ حکومت وجود میں آئی ہے سب سے زیادہ ظلم ڈیرہ بکٹی کے عوام اور بلوچوںپر کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں نواز شریف نے بلوچ رہنما کی امیدیں بندھائیں اور کہا کہ اگر ہم اقتدار میں آگئے تو بلوچوں کے تمام مسائیل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل ایک برطانوی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوے بلوچ آزادی پسندوں کو مخاطب کرتے ہوے بڑی عمدہ باتیں کی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ آزادی پسندوں کو سوچنا پڑے گا کہ وہ آزادی لے بھی سکتے ہیں یا نہیں!!!اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آیا وہ آزادی برقرار بھی رکھ پائیں گے؟انہوں ان آزادی پسندوں سے اپنی نیک تمنائوں کا اظہار بھی کیا۔مگر انُ کا کہنا تھا کہ ا ن کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ آزادی کس طرح حاصل کریں گے؟اور پھر اس کو برقرار کیسے رکھیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کے پاس دفاعی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کیفیت میں آزادی کو کیونکر برقرار رکھا جا سکتا ہے؟؟؟انہوں نے سوال کیا کہ اگر پاکستان ختم ہوجاتا ہے تو ہمارا کیا حشرہو گا؟؟؟اگر اس کے متبادل کوئی راستہ ہے توٹھیک ہے ورنہ بلوچ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری میں پھنس جائیں گے؟؟؟ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری پارٹی نے الیکشن 2008کا بائیکاٹ کر کے اچھا فیصلہ نہیں کیا تھااس بایئکاٹ اور بلوچ سرداروں کے اختلافات نے صوبے کے عوام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔نئے انتخابات کے سلسلے میں مزاحمت کاروں کی مخالفت کے ضمن میں سردار عطاء اللہ مینگل کا کہنا تھا کہ وہ نہ کسی کو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کی ڈکٹیشن پر چلتے ہیں۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دشمن بلوچ نوجوں کے جذبات کو بھڑکا کربلوچستان میں مزید تخریب کاری کرانا چاہپتے ہیں۔ جس سے بلوچستان کی پسماندگی میںمزید اضافہ ہوجائے گا۔اور پاکستان بھی مزید کمزوریوں کا شکار ہوجائے گا۔تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ تمام پاکستانیوں اور خاص طور پر پنجاب کے لوگوں کوبلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی ۔تاکہ ہمارے بلوچ بھائیوں کا احساسِ محروم ختم کیا جا سکے۔اور وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر وطنِ عزیز کی ترقی و خوشحالی میںحصہ دار بن سکیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید03333001671