سر زمین کشمیر کو شراب سے محفوظ رکھیں

kashmir

kashmir

حریت کانفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلانی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے حالانکہ رائے شماری کا امریکی خنجر پکڑ رکھا ہے۔ جس سے وہ کثرت اور ورزش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ ورزش دانشتہ ہے یا غیر دانشتہ ہے۔مگر یہ تحریک ایک یہودی مشن کا حصہ تھا۔ جس کے تحت ”کہ کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بنائو، اس میں تمام کشمیریوں کو قید کرو اور پھر آزادی کے اس پنجرہ کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکا دو، یہ ہے یہودی مشن کا اصل متن۔ جس کی تکمیل کیلئے سرگرمیاں گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔  جس کیلئے ارباب اقتدار ، جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاسی و سماجی لوگوں ، انتظامیہ ، سول سکورٹی فورسیز اور افواج کو پریشان کیا جاتا ہے۔ اور ایک حکمت عملی کے تحت ان کو مشتعل کیا جاتا ہے۔ اور کوشیش کی جاتی ہے۔ کہ کشمیری عوام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے ۔ یہ ایک بیرونی سیاست کو فائدہ پہنچانے کیلئے بھی ہوتا ہے۔ وہ لوگ اپنے مفاد کیلئے دوسروں ملکوں کو کمزور کرنے کیلئے یہودی مشن چلواتے ہیں۔ وہ کوشیش کرتے ہیں۔ کہ وہ ان کا مشن کامیاب ہو۔ وہ دلائی لامہ جیسی شکل و صورت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ملکوں کو کمزور کرنے میں معاون بنتے ہیں۔ ابھی دلائی لامہ جی نے انا ہزارے کی مہم کی حمایت کرکے واضع کردیا کہ وہ جمہوری نظام کے حمایتی نہیں ہیں۔انا جی یہ دعویٰ کررہے تھے۔ کہ ان کو ہندوستان کے ایک ارب بیس کروڑ لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ مداری کی حیثیت سے وہ صرف سڑکوں پر عوامی حمایت کا تماشہ دیکھاسکتے ہیں۔مگرجمہوری نظام سے وہ بھاگتے ہیں۔ لیکن گاندھی جی کی تقلید کرتے ہیں۔ مگر ان کی ہدایات سے گریز کرتے ہیں۔ یہ جمہوری نظام ان ہی کی دین ہے۔کہ اس نظام کے ذریعہ اقتدار میں آئو، اور نظام کی خامیوں کو دور کرو، وہ نظام کو درست نہیں کررہے بلکہ نظام پر بیٹھے لوگوں اپنا نشانہ بنا کر اپنی مکارانہ سیاست کررہے ۔ اور قومی پرچم کا اپنے مفاد کیلئے سیاسی استعما ل کررہے ہیں۔ جو کہ بڑی خرابی ہے۔ جھنڈے کا سیاسی استعمال کرنا بھی سب سے بڑا کرپشن ہے۔ چونکہ وہ ایک ازخود کرپشن کررہے ہیں۔ اس لئے ان کے لہجہ میںاکڑاور کبریائی صاف جھلکتی ہے۔
انا ہزارے نے سید علی شاہ گیلانی کی اکڑ کو کافی پیچھے کردیا ہے۔ فرق صرف اتنا  ہے کہ ایک تحریک کیلئے بھولے بھالے کا عوام خون ناحق بہایا جاچکا ہے۔ جبکہ دوسری انا کی تحریک کیلئے عوامی خون بہانے کی کوشیش کی جارہی ہے۔ یہ تو خدا کا فضل ہوا۔ کہ موجودہ حکمرانوںکے دل و دماغ میں  خدا نے یہ بات ڈال دی کہ پولس کو بغیر ڈنڈے کے اور فوج کو بغیر ہتھیار کے انا کی تحریک کی وقت تعینات کیا۔ اگر خدا کا یہ خصوصی فضل دہلی کے عوام پر ناہوتا تو انا کی تحریک بھی بھولے بھالے عوام کاکافی خون چوس لیتی ۔ کیونکہ انہوں نے حریت کی طرح ارباب اقتدار کو مشتعل کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ حکومت نے دہلی میں تیرہ دن تک انا تحریک کا جنگل راج برداشت کیا۔ مگر اُف تک نہیں کی۔ یہ بات اظہر من الشمش کی طرح عیا ں ہے۔ کہ کشمیر میں یہودی مشن یعنی کشمیر کو آزادی کاپنجرہ بنانے کی مہم کو موثر طور پر کامیاب بنانے کیلئے  ایک لاکھ سے زائد بے قصور ، بے گناہ ، بھولے بھالے ، مجرمانہ سیاست سے ناواقف کشمیری عوام کو لقمہ اجل بنایا جاچکا ہے۔اتنی بڑی تعداد کے ناحق ضائع ہونے کے بعد بھی ان کی خونی پیا س ابھی بھی نہیں بجھی ہے۔ ۔ خادم نے ماضی کے مضامین میں یہ دعویٰ کیا تھا۔ کہ کشمیر میں ایک خوشگوار ماحول بنانے میں یہ ”تنہا قلم ‘ ‘  ہی کامیاب ہوگا۔ خدا کا شکر ہے کہ جس کے اثرات چھہ ماہ بعد مرتب ہورہے ہیں۔ کہ ایک کشمیری نوجوان ہندوستان کی 28 ریاستوں میں روز گار کی تلاش میں ، اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کیلئے کشمیر کے پُر خطرحالات کے مدنظر رکھ کر دیگر ریاستوں میں آتااور جاتا ہے۔ اور وہ وہاں جاکر رہائش پذیر بھی ہوتا ہے۔ اگر اس کو پنجرہ نما آزادی میں الجھا کر قید کیا گیا ۔ تو یہ اس کی کشادہ آزادی سلب ہوگی۔ اور وہ ایک قیدی بن کر رہ جائے گا۔
خادم نے دعویٰ کیا تھا۔ کہ کشمیر میں امن حکومت نہیں لاسکتی ، حریت نہیں لاسکتی ، مرکزی و صوبائی سیکورٹی فورسز نہیں لاسکتی ۔بات چیت پر فائز مکالمہ کار امن لانے کے مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے۔ خادم نے ایک خاموش قلمی تحریک سے ایک انقلابی کیفیت پید ا کی جو نوجوان پتھر اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ ان لوگوں کی بات اب سننے کو تیار نہیں ہیں ۔ جن کے ہاتھ میں رائے شماری کا امریکی خنجر ہے۔ اور جو کشمیر میں ایک یہودی مشن چلارہے ہیں۔ مگر دکھ کی بات تو یہ ہوئی کہ جب اس مشن کی چند کشمیری آئمہ بھی تبلیغ کرنے لگے، اور اس تحریک کے واعظ بن گئے۔  بہرحال سید علی شاہ گیلانی کے فاروق عبداللہ کے بیان پر تازہ احتجاج کو فی الوقت درست کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ جموںو کشمیر کی حکمرانی پر صاحب ایمان فائز ہے۔ تو فاروق عبداللہ کو شراب کی دکانوں و سینماہالوں کو کھولنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ اگر فاروق عبداللہ کشمیر میں سیاحت کے فروغ کیلئے اس کو ضروری سمجھتے ہیں تو ان کو اپنی پارٹی کی طرف سے کشمیر کا وزیر اعلیٰ کسی ایسے شخص کو بنایا جائے ۔ جو غیر مسلم ہو۔ لیکن جب ہندوستان کے مہاتما گاندھی جی نے شراب سے دوری بنانے کی تحریک چلائی اور گجرات میں اس کے فروخت پر مکمل پابندی لگوادی، فاروق صاحب جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ اسلام کے پیغام کی اندیکھی کرر ہے ہیں۔ تو ان کو چاہئے کہ وہ گاندھی جی کے پیغام کی ہی تقلید کریں۔ گاندھی جی کا شراب سے دوری کا پیغام حالانکہ مذہب اسلام کی حمایت کرتا ہے۔ بحیثیت صاحب ایمان بھی فاروق صاحب کو سوچنا چاہئے ۔اب رہی بات سینماہالوں کی تو یہ بے حیائی و بے شرمی کا مرکز ہے۔ اس سے دوری بنانا بہت ضروری ہے۔ چونکہ جموں و کشمیر بھارت کا ایک عظیم حصہ ہے۔ جہاں گذشتہ 22  سالوں سے تمام سینما ہال بند پڑے ہیں۔ مگر وہاں کے مکانات سینما ہال میں تبدیل ہیں۔ مگر اس پر حریت پسندلیڈروں نے کیوں ابھی تک تحریک نہیں چلائی ۔ جوبرائی گھروں میں گھُس چکی ہے۔ کیا اس کو ختم کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ بات دلچسپ ہوگی۔ کہ وہ اس اعلان کے ساتھ ہڑتال کریں۔ کہ ان کے احتجاج میں وہ ہی شریک ہوں  گے جن کے گھر سینما کی چھوٹی اسکرین کی برائی سے پاک و صاف ہوں گے۔ تاکہ ان کے احتجاج میں للہیت ہی آجائے۔  بہرکیف سیدعلی شاہ گیلانی کا تازہ قدم اچھا ہے۔ جس کی تعریف کیا جاسکتی ہے۔  ماضی کی خرافاتی تحریک کیلئے ان کا یہ قدم ایک کفارہ ہے ، لہذا یہ بات اس خطہ کے مسلم عوام بلخصوص کشمیریوں کیلئے خوشی کی ہے۔کہ کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بنانے والوں میںشامل علی شاہ  گیلانی اب اچھائی کی طرف گامزن ہوگئے ہیں۔سرزمین کشمیر کو شراب کی لعنت سے محفوظ رکھنا سب ہی کی زمہ داری ہے۔اس فریضہ کو للہیت کے ساتھ انجام دیں۔ یہ ایک سماجی سے ساتھ ساتھ مذہبی خدمت بھی ہے۔
تحریر  :  ایاز محمود