سقوط ڈھاکہ سے بلوچستان تک

Balochistan

Balochistan

بلوچستان سلگ رہا ہے۔ ہر سو خون کا رقص بسمل جاری ہے۔ کراچی کی دادا گیری قتل و غارت کی بھتہ خوری لسانیت ٹارگٹ کلنگ کی تھیوری نے کوئٹہ کے سکون وامن کو تہہ بالہ کردیا۔ ظلم تو یہ ہے کہ ایک طرف کوئٹہ کے پر اشوب حالات نے ریاستی سلامتی کو سنگین خطرات و خدشات سے دوچار کررکھا ہے تو دوسری طرف غیر ملکی ایجنسیوں کے تنخواہ دار سرداروں دانشوروں نے سقوط ڈھاکہ کی رٹ لگارکھی ہے۔ اسے محب وطنی کہا جائے یا غداری اسے مکتی باہنی کا نام دیا جائے یا بلوچستان کا تیاپا نچہ کرنے کی خواہش رکھنے والے یہود و نصاری سے اظہار وفاداری کا فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے ہر باضمیر پاکستانی مضطرب ہے بلوچستان کے سردار نواب ارباب اختیار اور ڈالروں کو سجدہ کرنے والے خاکی سرخیلوں کی خدمت و اقدس میں درویش کا ایک عاجلانہ جملہ پیش کررہا ہوں کہ جب انسانی سر کاشت کئے جائیں گے تو وہاں گلاب نہیں ببولے پیدا ہوتے ہیں اگرپاک فوج کے سرخیل و دفاعی تجزیہ نگار اسی جملے پر غور کریں توسارے سربستہ راز اہستہ اہستہ طشت ازبام ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اختر مینگل پچھلے دنوں سیاسی افق پر چھائے رہے۔ اسلام اباد میں ٹاک شوز پریس کانفرنسز میں وہ سیکیورٹی اداروں پر خوب گرجتے اور برستے رہے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مغرب کا کوئی ایجنٹ پاک فورسز کو کمزور کرنے کی سازش کر رہا ہو۔

کوئی تسلیم کرے یا نہ مینگل کو بڑی مہارت اور چابک دستی سے الہ کار بنایا گیا۔ بلوچستان کے سردار ہوں یا نواب راجے ہوں یا مہاراجے جب سردار ٹاک شوز میں شرکت کرتے ہیں تو صوبے کی محرومیوں دکھوں کا ماتم کرتے ہیں تاکہ عوام کی ترجمانی کا ناٹک کامیاب ہو سکے مگر سچ تو یہ ہے کہ یہی سردار ہی صوبے کی پسماندگی درماندگی کے زمہ دار ہیں سارے مسائل کی جڑ یہی ادم خور نواب ہیں جو عوامی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کے اربوں روپے کافنڈز مگر انکی محرومیوں سے سرمو انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان کے سردار نواب اپوزیشن میں ہوں یا احباب اقتدار گروپ میں اکثریت اس نقطے پر متفق ہے کہ سیکیورٹی کی خاطر وہاں موجود فوجی نیم فوجی دستوں کو فوری طور پر واپس بھیجا جائے۔ بلوچستان میں لگی ہوئی اگ پھیلتی جارہی ہے کوچہ و بازار اسکی وحشت سے نہیں بچ پایا ۔ ٹیگور نے محرومیوں حق تلفیوں کے متعلق کہا تھا کہ محرومی و اگ ہے جسکے شعلے نظر نہیں اتے وہ ہر چیز کو خاکستر بنادیتی ہے۔بلوچستان کے زخموں کا اندمال ایک ایک دن میں ممکن ہی نہیں۔ وادی قلات کے حسن افریں نظاروں کی سرزمین کی حسرت و یاس تو روز اول سے ہر طرف پھیلی ہوئی ہے مگر بدقسمتی اور کم بختی کے ایندھن کی شدت کی سنگینی جرنیلی امریت کے ادوار میں روز افزوں رہی۔ مکے دکھا کر فرعونیت کی عظیم تاریخ کے مالک ڈکٹیٹر نے تو حد کردی۔ یہ وہی ہے جس نے اکڑفوں دکھائی کہ ہم اسے ایسے مسل دیں گے کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا۔ڈکٹیٹر نے 80 سالہ بلوچ رہنما نواب بگٹی کو اگست2006 میں شہید کردیا۔

گیدڑ بھبکیاں مارنے کے رسیا۔ لال مسجد اسلام اباد کو نیست و نابودکرنے والے مشرف نے بگٹی کے قاتلوں کو مبارکباد دیتے ہوئے فتح کا جشن منایا۔ مشرف کہا کرتا کہ بگٹی کی ہلاکت نے پاکستان کوسنگین خطرات سے بچالیا۔ شائد مشرفی ثناخواں بے خبرو ناداں تھے اور جاہل بھی کیونکہ یہ دہشت گرد بگٹی باضمیر و بلند قامت رہنما چیف منسٹر وفاقی وزیر گورنر کے اہم ترین ائینی عہدوںپر تعینات تھا اور فوجی اسے روزانہ گاڈر اف انر پیش کیا کرتے ۔ بھلا ایسی شخصیت کو سیکیورٹی رسک کہنا ائین پاکستان کی تقدیس کو مسخ کرنے کا جرم ہے جرنیلی کارپردازان اور مخالف سیاسی رہنماوں پر خود تراشیدہ تہمتیں لگانے والوں پر بھی ائین کے ارٹیکل 6 کا اطلاق کیا جائے۔ اکبر بگٹی محب وطن سیاسی رہنما تھا جس نے قائد اعظم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ جرنیلوں کے ساتھ ساتھ بلوچ رہنما بھی بلوچستان کی درماندہ صورتحال کے زمہ دار ہیں۔ بلو چستان کے سکولوں میں قومی ترانہ بجانے کی اجازت نہیں کسی کوچہ و بازار میں پاکستانی پرچم لہرانے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سردار ہمیشہ ترقیاتی کاموں اور فروغ تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں حائل کر دیتے ہیں تاکہ اجڈ اور ان پڑھ بلوچی ہمیشہ غلام رہیں۔ بلوچستان کا اسی فیصد حصہ سرداروں کے تسلط میں ہے جہاں کالے قوانین کی حاکمیت ہے۔ نواب سردار اپنے صدیوں قبل فرسودہ اور ازکار رفتہ قبائلی نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ حکومتی وسائل سے اکٹھا ہونے والہ اربوں روپیہ سرداروں کی زاتی تجوریوں کا حصہ بن جاتا ہے غریبوں کے لئے صرف ٹائیں ٹائیں فش فش۔

بلوچ رہنما اب تواتر سے علحیدگی اور ازادی کا مطالبہ کررہے ہیں اختر مینگل نے کہا تھا کہ پاکستان اور بلوچستان اپس میں چبھی ڈالکر ایک دوسرے کو اللہ حافظ کہہ دیں۔پاکستانی فورسز بلوچستان میں ظلم و جبر میں مگن ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے زمانے میں بھارتی اخبارات میں افواج پأاکستان کی جبریت پر مبنی لغو داستانیں شائع ہوتی تھیں مگر ظلم تو یہ ہے کہ یہاں کا میڈیا اور ٹاک شوز حقائق شناسی کے نام پر علحیدگی پسندوں کو ہیرو بنارہی ہے تاکہ وہ مکتی باہنی کے روپ میں ایک اور سقوط ڈھاکہ کی داستان الم کو دوبارہ دوہرایا جاسکے۔ بلوچستان کے حالیہ مجیب الرحمن ٹائپ بلوچ رہنماوں اور موصوف اختر مینگل سے چند سوالات کے جواب طلب کرنا لازمی ہیں۔ مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد سترہ ہزار ہے۔ مینگل سترہ ہزار لاپتہ افراد کے ناموں کی تفصیل فوٹوز ایڈریس اور شناخت کے ثبوت میڈیا جو خواہ مغرب کا ہی کیوں نہ ہو کو تحقیق و تفتیش کی خاطر استعمال میں لایا جائے۔ اختر مینگل کے ایک اور بھائی پہلے اغوا اور پھر قتل ہوگئے۔ وزیرداخلہ رحمن ملک نے مینگل کے تہی داماں نے تبصرہ کرتیہوئے کہا کہ اختر مینگل بلوچستان کے وزیراعلی رہے ہیں حکومتی پاور کے بل پر بھائی کے قاتلوں کو کیفر انجام تک پہچاسکتے تھے مگر انہوں نے دلچسپی نہیں لی۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ بلوچستان اس وقت بدامنی خون ریزی کا میدان بنا ہوا ہے۔ اختر مینگل اور انکی جماعت پے درپے ملٹری اشرافیہ پر الزامات عائد کرتی ہیں۔

Akhtar Mengal

Akhtar Mengal

انکے ارمی کے ساتھ شکوے شکایت بجا ہوسکتے ہیں مگر جس ایشو ملٹری اپریشن پر وہ صف ماتم بچھائے ہوئے ہیں کے متعلق عدلیہ نے کہا ہے کہ وہ ان علاقوں کا دورہ کریں۔ وہ گلا پھاڑ کر اپنے بیانات کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ بلوچستان میں اب تک 1500 پنجابیوں کو مار دیا گیا اگر مینگل اپنی حقیقت میں پنجابیوں کا زکر کرتے توشائد کل بہت سوں کی شامت انے والی ہے۔ حقیقت شناسی کا تقاضا تو یہ تھا کہ سردار ایک طرف پنجابیوں کا نقطہ سننے کی خاطربیقرار دکھائی دیتے تو دوسری طرف کوئٹہ کے ارد گرد رہنے والی ہزارہ قوم کے ہزاروں مقتولین کا زکر و ورد بھی کرتے رہتے مگر انکے لبوں سے پنجابیوں اور ہزارہ اقوام کے لئے ہمدردی کے دو لفظ بھی انجان بن گئے۔

ہزارہ قبیلہ بلوچ نہیں تو کیا ہوا مسلمان تو ہے۔ ہم ایک قران اسلام کا پیروکار ہیں۔ کوئٹہ کے ارد گرد ہزارہ قبیلہ کے ہزاروں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ مجرموں کا کوئی پتہ نہیں کہ اسمان کھاگیا یا زمین میں درگور ہوچکے۔بلوچ سردارو اور علحیدگی کے نعرے لگانے والے سن لیں کہ سقوط ڈھاکہ۔ بحرف اخرپاک فوج حکمران اور سردار اپنے دلوں کی کدورتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں۔ درویش کا جملہ ہے کہ جب گھر گھر اگ لگی ہو گھر کے افراد ایک دوسرے کو کوسنے دینے اورالزام تراشیوں کی بجائے پہلے گھر والے اگ بجھانے کی کوشش کریں ورنہ اسکی راکھ خش و خاک بن کر ہمیشہ کے لئے فضاوں میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ اگ بجھانے کے بعد سارے گھر والے بنیادی اسباب کا جائزہ لیں تاکہ کل کلاں کسی کو انگلی اٹھانے کا جواز نہ مل سکے۔

تحریر روف عامر پپا بریار