پاکستان : (جیو ڈیسک) سپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ پاکستانی کرکٹر محمد عامر نے الزام لگایا ہے کہ قومی ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ نے انھیں سپاٹ فکسنگ میں ملوث کیا۔ انیس سالہ فاسٹ بالر محمد عامر نے ایک انٹرویو میں کہا سلمان بٹ نے میری دوستی کا فائدہ اٹھایا اور مجھے اس سارے معاملے میں ملوث کرنے کی بجائے میری مدد کرنی چاہیے تھی۔
محمد عامر کو سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر لندن کی عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی تاہم اچھے رویے کے سبب انہیں گزشتہ ماہ تین ماہ کی سزا کے بعد ہی رہائی مل گئی تھی اور گزشتہ ماہ ہی واپس پاکستان پہنچ گئے تھے۔ محمد عامر کے مطابق سلمان بٹ سے جب ان کی پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ ایک سینیئر کھلاڑی اور پاکستان کے سٹار کرکٹر تھے۔
سلمان بٹ کا جونیئر کھلاڑیوں میں کافی اچھا امیج تھا، ان کا رویہ صرف میرے ساتھ ہی بلکہ تمام جونیئر کھلاڑیوں کے ساتھ اچھا تھا، وہ ہنسی مذاق اور میل جول رکھتے تھے۔ وہ پڑھے لکھے تھے اور میرے خیال میں ایک اچھے انسان تھے۔ محمد عامر کے بقول سلمان بٹ نے بتایا کہ انھوں نے میرا ذکر کسی کے سامنے کیا ہے اور انھیں بتایا کہ میں ایک اچھا لڑکا اور اچھا بالر ہوں۔ وہ میرے ساتھ بڑے بھائیوں جیسا سلوک کرتے تھے۔محمد عامر نے انکشاف کیا ہے کہ دبئی میں سلمان بٹ کے ساتھ ان کی ملاقات علی نامی ایک شخص سے ہوئی اور سلمان بٹ کے بقول وہ ان کے دوست ہیں اور انھیں صرف علی کے نام سے ہی جانتے تھے۔
محمد عامر اور علی نے موبائل فون کے ذریعے ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ کیا تھا اور بعد میں محمد عامر کو ان پیغامات کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ علی اکثر پاکستان میں ہوتا تھا اور اس نے میرا موبائل نمبر مانگا، اس نے مجھے ایک یا دو بار فون کیا اور ہماری ملاقات ہوئی۔ محمد عامر کے بقول انگلینڈ کے شہر ایجبیسٹن میں علی نے میرے سے انگلینڈ میں زیر استعمال موبائل فون نمبر مانگا اور میں نے اسے یہ نمبر دے دیا کیونکہ وہ سلمان بٹ کا دوست تھا۔
اس نے میرے سے بینک اکانٹ نمبر مانگا تو میں نے اس سے وجہ معلوم کی تو اس پر جواب دیا کہ یہ بعد میں بتاں گا۔ محمد عامر کے بقول میں کسی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا، میں تجسس میں مبتلا ہو گیا کہ وہ میرے سے بینک اکانٹ کی تفصیلات کیوں مانگ رہا ہے اور میں یہ جاننا چاہتا تھا۔اس نے میرے سے دو بار پوچھا کہ کیا سلمان بٹ کی میرے سے بات ہوئی اور بعد میں میرے سے بینک اکانٹ کی معلومات مانگی، میں یہ جاننا چاہتا تھا اور اسی وجہ سے میں نے اسے موبائل پر ٹیکسٹ پیغامات بھیجے۔ایک سوال کے جواب میں محمد عامر نے کہا کہ علی کی جانب سے ان کو کوئی رقم نہیں ملی۔
میں بے وقوف تھا اور مجھے کسی کو بتانا چاہیے تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ چیزیں اس طرح ہو جائیں گی اور میں نے کسی بھی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ محمد عامر کے بقول مظہر مجید سے سلمان بٹ نے ہی ان کی ملاقات کرائی تھی اور اگست دو ہزار دس میں لارڈز ٹیسٹ میچ سے ایک دن قبل مظہر مجید نے ان کو ہوٹل میں فون کر کے کہا وہ ان سے انتہائی ضروری بات کرنا چاہتا ہے اور وہ ہوٹل کی کار پارکنگ میں آ جائیں۔کار پارکنگ جانے کے لیے ہوٹل کی لفٹ میں ان کا سلمان بٹ سے آمنا سامنا ہو گیا۔
جب میں کار میں بیٹھا تو اس وقت سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ جیسے مجھ پر حملہ کر دیا گیا ہو، اچانک مجید نے کہا میرے بھائی تم ایک بڑی مصیبت میں پھنس چکے ہو، تم پھنس چکے ہو اور تمہارا کیرئیر خطرے میں ہے۔اس پر میں نے کہا بھائی کیا ہوا۔ مجید نے کہا علی کے ساتھ موبائل فون پر بات چیت اور پیغامات کو ریکارڈ کیا جا چکا ہے اور یہ آئی سی سی کے پاس پہنچ چکا ہے۔پھر مجید نے سلمان بٹ سے کہا کہ اگر میں مدد کروں تو میرا نام تحقیقات میں نہیں آئے گا۔
عامر: کیسی مدد؟ مجید: میرے لیے دو نو بالز کروں۔ عامر: میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ میں کتنا بے وقوف ثابت ہوا ہوں، میں اپنے آپ کو اندر اندر سے کوس رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ کرکٹ کے ساتھ دھوکہ ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے اور یہ میرے لیے ایک خوفناک کیفیت تھی۔میں پریشانی، ہیبت اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گیا۔اس صورتحال میں سلمان بٹ نے کہا، کیا تمھیں کچھ یاد ہے؟
یہ ٹھیک نہیں تھا لیکن میں نے نو بال کرائی محمد عامر کے بقولاس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ سب کیسے ہوا اور اس غلطی کے لیے کیسے سازباز کی گئی اور میں صرف معافی ہی مانگ سکتا ہوں۔ میں معافی مانگنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہوں، میں تہ تنبیہ لازمی کرنا چاہوں گا کہ حکام کو اس حوالے سے لازمی آگاہ کریں۔ آج میں ہوں اور کل کو کوئی اور اس صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔وہ آپ کو بندوق کی نوک پر جال میں نہیں پھنساتے، آپ کے ساتھ دوستی کرتے ہیں اور بلآآخر ٹریپ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔