اُنیس سو ستانوے کے انتخابا ت ایسے انتخابات تھے جن میں میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی اور یوں میاں محمد نواز شریف ذولفقار علی بھٹو کے بعد ملک کے سب سے طاقتور وزیرِ اعظم بن کر ابھرے تھے۔ان انتخابات میں جسطرح سے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف سازشیں کی گئیں وہ سب کے علم میں ہیں۔صدرِ مملکت سردار فاروق لغاری اور میاں برادران کے درمیان شراکتِ اقتدار کا ایک خفیہ سمجھوتہ طے پا یاتھا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف میڈیا ٹرائل کاایک بھیانک سلسلہ شروع کیا گیاتھا اور یوں ان ا نتخابات میں میاں محمد نواز شریف کی جماعت کیلئے جیت کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ گھوڑے آملیٹ کھا تے ہیں اسی دور کا ایک ایسا جملہ تھا جسے آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے اور ان پر مقد مہ چلانے کیلئے عوام میں مقبول بنا یا گیا تھا۔ آصف علی زرداری اپنی گرفتاری کے بعد لگا تار ساڑھے آٹھ سال تک قیدو بند میں رہے۔ مسلم لیگ (ن) کی انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد میاں محمد نواز شریف ایک منتقم المزاج حکمران کی شکل میں سامنے آئے۔ سارے وعدے، یقین دہانیاں اور قسمیں دھری کی دھر رہ گئیں ۔ میاں برادران اور فاروق احمد لغاری کے درمیان خفیہ سمجھوتہ تارِ عنکوبت ثابت ہوا کیونکہ اب میاں برادران کو فاروق احمد لغاری کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہی تھی کیونکہ میاں محمد نواز شریف نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اقتدارِ مطلق کی خوا ہش کی بنا پر دونوں اہم کرداروں کے درمیان شدید نے جنم لیا اور یوں پی پی پی کو تختہِ مشق بنانے والے دونوں بڑے کردار ایک دوسرے کے خون کے پیا سے ہو گئے۔ میاں محمد نواز شریف چونکہ پارلیمنٹ میں بڑی واضح اکثریت رکھتے تھے لہذا فاروق احمد لغاری کے لئے کوئی جائے عافیت باقی نہیں بچی تھی۔ پی پی پی نے بھی فاروق احمد لغاری سے آنکھیں پھیر لی تھیں کیونکہ لغاری صاحب کی ہوسِ اقتدار کی وجہ سے ہی تو پی پی پی کو ہزیمت اٹھا نی پڑی تھی۔میاں محمد نواز شریف نے فاروق احمد لغاری کو بڑی ذلت اور رسوائی سے ایوانِ صدر سے رخصت کیا ۔رفیق ا حمد تا رڑ نئے صدر منتخب ہو گئے اور یہی سے میاں محمد نواز شریف کی سول آمریت کی راہیں ہموار ہوئیں جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے مخالفین کا جینا حرام کر دیا۔میاں محمد نواز شریف نے سب سے پہلے اپو زیشن لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا یا ۔ بی بی پر ملکی عدالتوں اور غیر ملکی عدالتوں میں کرپشن کے کئی مقدمات قائم کئے تاکہ اپنی سب سے بڑی سیاسی حر یف کو سیاست سے بے دخل کر کے میاں صاحب سیا ہ و سفید کے مالک بن جا ئیں اور ا میر المومنین بننے کا ان کا دیرینہ خواب شرمندہِ تعبیر ہو جائے۔اپنے اس جذبے کی تکمیل کی خاطر پاکستانی خزانے سے اربوں روپے اس شرمناک مہم پر خرچ کئے گئے جس کا واحد مقصد بی بی کی شہرت کو داغدار کرنا تھا۔ میاں محمد نواز شریف کے دستِ راست سینیٹر سیف الرحمان ججز کو د ھمکیاں دیتے رہے انھیں مجبور کرتے رہے کہ وہ بی بی کے خلاف فیصلہ سنائیں۔ ریاستی جبر کے سامنے ججزکے پاس حکومت کی حسبِ ِ منشا فیصلہ سنانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھاکیونکہ انھیں بھی اسی ملک میں رہنا تھا لیکن قدرت کے کھیل دیکھئے کہ سینیٹر سیف الرحمان اور ججز کی گفتگو کی وہ کیسٹ جس میں سینیٹر سیف الر حمان ججز کو فیصلہ سنانے پر مجبور کررہا تھا پر یس کو ریلیز ہو گئی اور یوں بی بی کی بے گناہی کا ثبوت بن گئی۔ بے پناہ حکومتی جبر کی وجہ سے بی بی کو جلا وطنی پر مجبور ہو نا پڑا ۔ بی بی کو کمزور کرنے کی خاطر ان کے شوہر آصف علی زرداری پر بھی اسی نوع کے بے شمار مقدمات دائر کر دئے۔ انھیں زندانوں کی بے رحم ساعتوں کے حوالے کیا گیا جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ساڑھے آٹھ سال گزارے لیکن میاں صاحب کی آمریت کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کردیا۔ ا پنی سول آمریت اور بے پناہ ظلم و جبر میں میاں محمد نواز شریف بھول گئے تھے کہ بی بی اس دلیر باپ کی بیٹی ہے جس نے شاہراہِ حیات پر سفرِ زندگی سر اٹھا کر طے کیا تھا لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ اسی شاہرہ پر اسکی شیر دل اور نامور بیٹی سر جھکا کر گز ر جاتی۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہو تی ہے لہذا شیر دل بی بی نے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر کے میاں صاحب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔جلا وطنی قبول کر لی لیکن حق و صداقت کے پرچم کو سر نگوں نہ ہونے دیا۔۔ میاں محمد نواز شریف کے دور ِ حکومت میں عدلیہ کے وقار کو جس بری طرح سے مجروح کیا گیا تاریخِ پاکستان اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد حسین شاہ کے قتل کیلئے سپر یم کورٹ پر حملہ ایک ایساشرمناک واقعہ ہے جس پر ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ چیف جسٹس سید سجاد حسین شاہ کو جسطر ح ساتھی ججوں کی بغاوت سے بر طرف کیا گیا وہ پاکستانی عدلیہ پر ا یسا سیاہ اور بد نما داغ ہے جسکو کسی بھی طرح سے اسکے چہرے سے دھویا نہیں جا سکتا۔ نوٹوں سے بھرے بر یف کیس کوئٹہ پہنچائے گئے۔ بریف کیسوں کا واحد مقصد چیف جسٹس سید سجاد حسین شاہ کی بر طرفی پر مہرِ تصد یق ثبت کر وا نا تھا لہذا کوئٹہ بنچ نے یہ کام انتہائی ذہانت اور ڈھٹائی سے سر انجام دیا اور جس شخصیت نے اس کارنامے کی انجام دہی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا وہی شخصیت بعد میں صدرِ پاکستان کی مسند پر بٹھا ئی گئی ۔یہ سچ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی حکو مت کے خلاف ایک ایسا فیصلہ آنے وا لا تھا جسمیں ٥٨ (٢بی) کو قانون کا حصہ بنایا جانا تھا تا کہ صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری میاں صاحب کی حکو مت کا تڑن تختہ کر سکیں ، میاں صاحب پر اس ممکنہ فیصلے کے ایسے اعصا بی اثرات مرتب ہو ئے کہ انھوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے چیف جسٹس سید سجاد حسین شاہ کی زندگی کا چراغ گل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ صدرِ پاکستان کے آئینی اختیا رات کے استعمال سے میاں صاحب اتنے خوف زدہ تھے کہ وہ یہ بھول گئے تھے کہ انکے پاس تین چوتھائی اکثریت ہے اورچیف جسٹس سید سجاد حسین شاہ کا ممکنہ فیصلہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا لیکن جب دما غ میں انتقام چھا جائے تو پھر کچھ بھی سجھا ئی نہیں دیتا ۔ میاں محمد نواز شریف کسی وقت بھی صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری کے خلاف عدمِ اعتماد(مواخذے ) کی تحریک پیش کر کے انھیں آسانی سے اپنے را ستے سے ہٹا سکتے تھے۔ میاں صاحب نے بعد میں مواخذے کی تحریک پیش کر کے ہی صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد لغاری کومستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا لیکن یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب میاں صا حب سپریم کورٹ پر حملہ کر کے بدنامی کی سیاہی اپنے چہرے پر مل چکے تھے۔ اس حملے کی پوری ویڈیو موجود ہے لیکن مسلم لیگ (ن) ہے کہ پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی اور عدلیہ کے احترام کا ورد کرتے نہیں تھکتی۔۔ میڈیاکے خلاف میاں صاحب کی آمرانہ پالیسی نے آزاد میڈیا کے خواب کو چکنا چور کر کے رکھ دیا۔ میاں صاحب نے سب سے پہلا وار پاکستان کی ہر دلعزیز صحافی مدیحہ لودھی پر کیا اور انکے ایک آرٹیکل پر انکے خلاف بغاوت کا مقدمہ دائر کر دیا۔پی پی پی نے اس شرمناک فعل پر شدید احتجاج کیا اور صحافت پر اس شب خون کے خلاف ہر محاذ پر اسکے خلاف آواز اٹھا ئی اور مدیحہ لودھی کو ریاستی تشدد سے بچانے کی خاطر بھر پور احتجاج کیا۔ یہ پی پی پی کی جدو جہد اور احتجاج کا ا ثر تھا کہ میاں صاحب کو دفاعی شارٹ کھیلتے ہوئے مدیحہ لودھی کے خلاف بغاوت کے مقدمے کو واپس لینا پڑا۔ ابھی یہ واقعہ فضائوں میں ہلچل مچائے ہو ئے تھا کہ میاں صاحب نے جنگ اخبار کے انتہا ئی سینئر اور قابلِ احترام ایڈیٹر ارشا احمد د حقانی کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا۔ ارشاد احمد حقا نی بائیں بازو کے ایک ایسے صحافی تھے جو پی پی پی کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ناقدین میں شمار ہو تے تھے۔جنگ گروپ کے میر شکیل ا لر حمان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ ارشا احمد حقانی کو اپنے اخبار سے علیحدہ کر دیں کیونکہ انکے مسلم لیگ (ن) پر تنقیدی کالم برداشت سے باہر ہیں۔ معاملہ کافی طول پکڑ گیا کیونکہ میر شکیل ا لر حمان نے ارشا احمد حقانی کو جنگ گروپ سے فارغ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میاں صاحب کی حکومت نے ٹیکس چوری او بد دیا نتی کے دو سر ے بہت سے مقدمات جنگ گروپ پر قائم کر د ئے جسکی وجہ سے جنگ اخبار وقتی طور پر بند ہو گیا۔عوام حیران و پریشان اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے اور حکمرانوں کی برداشت کا اپنی آنکھو ں سے مشا ہد ہ کر رہے تھے ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخرارشا احمد حقانی سے کون سی ایسی خطا ہو گئی ہے جسکی پاداش میں جنگ اخبار کو بند کرنے کی نوبت آگئی ہے۔ بہر حال دونوں جانب سے بہت سے دوست اور بہی خواہ میدان میں کود پڑے تاکہ اس مسئلے کو کسی طرح سے سلجھا یا جائے۔ بڑی مشکل سے میاں صاحب کو راضی کیا گیا کہ وہ جنگ کے معا ملے میں اپنے رویے میں قدرے نرمی پیدا کریں۔ کئی ہفتوں کی بند ش کے بعد جنگ اخبارکو اشا عت کا اجازت نامہ ملا لیکن جنگ اخبار کو آزادانہ تنقید کو مصلحتوں کا شکار کرنا پڑا ۔ اور یوں زرد صحافت کی بنیادوں کو مزید توانائی عطا کی گئی۔ایک اور مشہورو معروف دانشور اور نا مور صحافی نجم سیٹھی کے ساتھ میاں برادران نے جسطرح کا برتائو کیا وہ آج بھی میاں برادران کیلئے سوہانِ روح بنا ہوا ے۔ یہ ا ختلافِ رائے کی بنا پر ذاتی انتقام کی بد ترین مثال تھی جو نجم سیٹھی کے ساتھ روا رکھی گئی تھی۔ نجم سیٹھی کو جس طرح سے مشقِ ستم بنایا گیاا س نے میاں برادران کے چہرے پر پڑے ہوئے اس نقاب کو نوچ کر پھینک دیا جو انھوں نے آزاد میڈیا کے بارے میں اپنے چہروں پر سجا رکھا تھا۔۔ دانشو روں کا قول ہے کہ جمہوریت کا حسن ہی اختلافِ رائے میں مضمر ہوتا ہے ۔ اگر ہر معاملے میں یک رنگی ہو تو پھر جمود اور جبر کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو جمہوری کلچر کے بالکل منافی ہوتا ہے۔ صحت مند تنقید کو ہمیشہ خوش آمدید کہنا چائیے تاکہ امورِ سلطنت بہتر انداز میں چلا ئے جا سکیں اپوزیشن جس اختلافِ رائے کا اظہار کرتی ہے اس میں حکمرانوں کی بہتری مضمر ہو تی ہے لیکن حکمرانوں کو ا ختلافِ رائے شائد نا گوار گزرتا ہے تبھی تو وہ کوئی بھی اختلافی بات سننے کے روادار نہیں ہو تے اور اگر کو ئی فرد یا ادراہ ان کی پالیسیوں اور اندازِ فکر سے اختلاف کرتا ہے تو اسے ٹھکانے لگانے کا سوچتے رہتے ہیں۔دراصل حکمران خود کو عقلِ کل کا مالک تصور کرتے ہیں اسی لئے کسی مشورے اور تنقید کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے اور اسی طرح کا اظہار میاں محمد نواز شریف کی ذات سے بھی ہو رہا تھا تبھی تو انھوں نے نامور صحافیوں کے ساتھ متشدد رویہ اپنا رکھا تھا۔بیوو کریسی کی تذلیل ایک علیحدہ داستان ہے۔فیصل آباد میں سینر سول افسروں کو شہنشا ئے وقت میاں محمد نواز شریف کے دربار میں جس طرح ہتھکڑیوں میں پیش کیا گیا اور ان کی بھر پور تذلیل کی گئی وہ ایک علیحدہ داستان ہے ۔ باعثِ حیرت ہے کہ آج کل میاں برادران اسی بیو و کریسی اور سینئر افسراں کے تحفظ اور وقار کے لئے باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔ انھیں گورنمنٹ کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے ہیں اور گورنمنٹ کو دھمکیاں دے رہے ہیں جب کہ بیوو کریسی کے حوالے سے ان کا اپنا ماضی انتہائی شرمناک ہے۔۔فوج کے ڈسپلن کو جس بھونڈے انداز سے تبا ہ وبرباد کرنے کی کوشش کی گئی وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔آصف نواز جنجوعہ کی پر اسرار موت کے سائے ابھی گہرے تھے اور آصف نواز جنجوعہ کی موت کے حوالے سے انگلیاں میاں برادران کی جانب اٹھ رہی تھیں۔ میاں برادران سخت دبائو میں تھے کہ انتخابات میں انھیں دو تہائی اکثریت نصیب ہو گئی لہذا انھوں نے فوج سے حساب برابر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بڑے ہی تضحیک آمیز طریقے سے جنرل جہانگیر کرامت کواپنی رہائش گاہ پر بلا کر مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ انکے تمغے اور سٹارز اتار کر پھینک دئے گئے اور انھیں ذلیل و خوار کر کے ا ستعفی دینے پر مجبور کیا گیا۔ جنرل جہانگیر کرا مت کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے آصف نواز جنجوعہ کی طرح میاں برادران کا ذاتی ملازم بننے سے انکار کر دیا تھا۔ جنرل جہانگیر کرامت کو فوج کا ڈسپلن، اسکا وقار اور احترام عزیز تھا لہذا اسکے پاس ا ستعفی دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی میاں برادران نے ایسا ہی کھیل کھیلا ۔ انھیں سری لنکا کے سرکاری دورے کے دوران انکی غیر حاضری میں سبکدوش کر کے اپنے سسر ا لی جرنیل خواجہ صلاح الدین بٹ کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز کر دیا گیا لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کے مصداق فوجی قیادت نے میاں صاحب کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک بہتر حکمتِ َ عملی سے اس حکم نامے کو غیر مو ثر کر کے رکھ دیا۔جنرل پرویز مشرف کو انکے عہدے سے ہٹانے کا یہی آمرانہ فیصلہ میاں محمد نواز شریف کے زوال کا باعث بنا اور وہ وزیرِ اعظم ہائوس سے سید ھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔ دوسروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے میاں برادران جیل کی سختیوں کے سامنے کیسے ڈھیر ہوئے میں،ان کی ہمت کیسے جواب دے گئی اور انھوں نے معافی نامہ لکھ کر کیسے جان بچا ئی ایک انتہائی دلچسپ داستان ہے لہذا سول آمریت کی اس عبرت انگیز داستان کا پاکستان کے ہر شہری کیلئے جاننا انتہائی ضروری ہے تا کہ اصل حقائق تک رسائی ممکن ہو سکے۔ تحریر : طارق حسین بٹ