دیکھو کیا یہ عجب ملک کی عجب کہانی نہیں ہے اپنے زمانے کے ملک اور قوم کے لئے زہر ہلاہل قرار دیئے جانے والے آمر جنرل پرویز مشرف جو پردیس میں خود ساختہ جِلاوطنی کے ایام گزار رہے ہیں وہاں سے اِنہوں نے بھی اپنا سینہ چوڑاکرکے اور اپنی گردن تان کر ملک کے موجودہ حکمرانوں کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی پر کھلی تنقید کی ہے یعنی آج اِن کی ملک کے موجودہ حکمرانوں پر اِس طرح کی جانے والی زبان درازی سے یہ مثال صادق آرہی ہے کہ سُوپ تو سُوپ چھلنی کیا بولے جس میں بہتر سو چھید، گو کہ ملک کے موجودہ حالات پر ملک اور قوم کے سوداگر پرویز مشرف سے بھی نہ رہا گیا اور اِنہوں نے بھی اپنے ملک کی حالتِ زار پر اپنی زبان جس انداز سے ہلائی ہے اِس کا تذکرہ ہم اگلی سطور میں کریں گے مگر ضروری ہے کہ اِس موقع پر آمر مشرف کی اِس تنقید پرہمارے حکمران بھی اتنا ضرور سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ آج مشرف جیساآمر بھی اِن کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی پر چیخ پڑاہے کیوں۔
مگر قبل اِس کے کہ ہم آگے چلیں …یہاں اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ ہم بھی موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی پر گاہے بگاہے تنقیدیں کرتے رہتے ہیں مگر اِس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم اِن سے کُلی طور پر خائف رہتے ہیں اور ایسا بھی ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارے سابقہ کالمزاِس بات کے گواہ ہیں کہ ہم نے اپنے موجودہ حکمرانوں کے کئی ایسے اقدامات اور منصوبوں کی حمایت اور تائید میں بھی بہت کچھ لکھا ہے جس کے یہ حقدار تھے مگر اِس کا کوئی ہرگز ، ہرگز یہ مطلب بھی نہ لے کہ ہم اِن کے حامی یا نوازے گئے کوئی چیلے ہیں اصل بات یہ ہے کہ جہاں ہم نے ضروری سمجھا ہم نے اپنے اِن حکمرانوں کی شان میں قصیدے بھی لکھے اور جہاں ہم نے یہ سمجھا کہ اِن کے اقدامات اور منصوبے ملک اور قوم کے لئے مفید نہیں ہیں تو ہم نے اِن پر اپنے اِن ہی کالموں میں کہیں کھلے تو کہیں دبے لفظوں میں تنقیدیں بھی کیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے اتنا لکھنے کے باوجود بھی اِن پر ہمارے نہ تو اچھے کالموں کا کوئی اثر ہوا اور نہ آج تک اِنہوں نے ہمارے تنقیدی کالمز پر کوئی کان دھرا ہے مگر اِس کے باوجود بھی ایک ہم ہیں کہ اپنا کام اِس اُمید پر کئے جا رہے ہیں کہ کبھی نہ کبھی اور کوئی نہ کوئی ہمارا کالم اِن پر ضرور اثر کر جائے گا اور کسی کا سویا ہوا ضمیر ضرور جاگ اُٹھے گا اور پریشان حال اپنی قوم کی دادرسی کے لئے اِن سے ضرور رابطہ کر کے اِن کی خبر لے گا۔
بہرحال، آج ہم بات کررہے ہیں آمر جنرل پرویز مشرف کی جنہوں نے اپنے زمانے کہ ایسے جمہوری حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ہے جنہوں نے اپنے عوام کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کا دلفریب اور دلکش نعرہ تو خوب لگایا مگر اِن شاطروں نے دیدہ و دانستہ طور پر تینوں اشیاسے عوام کو محروم رکھنے کا جو ریکارڈ قائم کیا اِس کی مثال بھی ملک کی چونسٹھ سالہ تاریخ میں مشکل ہی سے کہیںملے یانہ ملے مگر آج ضرور ملتی ہے یعنی آ ج اپنے مفادات کی رسہ کسی میں مصروفِ عمل رہنے والے حکمرانوں کی چارسالہ کارکردگی پر زبان درازی کرتے ہوئے ملک کے سابق آمر جنرل مشرف نے دبئی میں ایک پاکستانی بزنس مین سے اپنی خصوصی ملاقات میں کفتگوکرتے ہوئے کہاہے کہ آج پاکستان کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہے، ہمیں پاکستان کو بچانے اور تباہ حال معیشت کو صحیح خطوط پر چلانے کے لئے متحد ہوکر یونین کونسلوں، ٹاؤن اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کا پیغام گھر گھر پہنچاناہو گا اِس موقع پر حیران کُن بات یہ ہوئی کہ سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے اِس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ کرپشن اور لوٹ مارکرنے والوں کو ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہو گا اور سابق مسٹر آمر نے اپنا سینہ ٹھونک یہ بھی کہا کہ ہم لیٹروں کا احتساب کریں گے ،کیوںکہ پاکستان بھر کے عوام موجودہ حکمرانوں کو بددعائیں دے رہے ہیں (تو عرض ہے مسٹر مشرف موجودہ حکمرانوں کو تو قوم بد دعائیں دے ہی رہی ہے اور اِس کے ساتھ آپ کو یہ بھی یاد رہے کہ ملک کا بیڑاغرق کرنے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے آ ج قوم آپ کو بھی بددعائیں دے رہی ہے یہ بھی تو آپ کو یاد رکھناچاہئے)۔
ابھی مسٹر مشرف کی بات یہیں ختم نہیں ہو گئی ہے آگے چل کر مشرف جی فرماتے ہیں کہ آج غیر ملکی سرمایہ کاری بھی رُک گئی ہے، ملک افراتفری کا شکار ہے اور فرماتے ہیں کہ ملک میں ہر طرف احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں مگرحکمران سب اچھا ہے کا نعرہ لگا کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں یہاں ہم بش کے یار مشرف جی کو یاد کرانا چاہتے ہیں کہ جناب آپ نے بھی تو اپنے دورِ آمریت میں عوام کے احتجاجوں اور مظاہروں کی کوئی پرواہ نہیںکی تھی اُس وقت بھی عوام آپ کے عتابوں سے ایسے ہی بیزار اور تنگ تھی مگر آپ تھے کہ سب اچھاہے کا نعرہ لگاکر اپنے دوست بش کے ہاتھوں ملک اور قوم کی بقاوسا لمیت کا سوداکرنے اور قوم کو ڈرون حملوں کی اذیت اور اِنکے نتیجے میں معصوم انسانوں کی لاشوں کا تحفہ اُٹھانے کا منصوبہ بناتے رہے جس کا خمیازہ آج بھی قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے اِس کا جواب کیا مسٹر آمر مشرف آپ دے پائیں گے اور مسٹر آمر پرویز مشرف جی آج آپ کس منہ سے قوم کوخبردار کررہے ہیں کہ اگر عوام نے موجودہ نااہل حکمرانوں سے جلد چھٹکارا نہ پایا تو ملک کو یہ مزید برباد کر دیں گے، اِنہیں پاکستان اور پاکستانی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں اُنہوں نے کہاکہ میں بہت جلد پاکستان آؤں گا چونکہ اِنہیں یہ خوش فہمی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ عوام میری آمدکے شدت سے متظر ہیں۔
اِس پر ہم یہ کہیں گے کہ مسٹر آمر جنرل مشرف جی آپ قوم کو اپنے مفادات کے خاطرمت للکاریں آج قوم خوب سمجھتی ہے کہ اِسے کیا کرناہے اور کیا نہیں کرناہے کیوں کہ آج پاکستانی قوم آپ کی پیداکردہ مشکلات اور مسائل کی چکی میں پک کر ایسی کُندن بن چکی ہے کہ یہ خُوب جانتی ہے کہ ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ نہ موجودہ حکمران کرسکتے ہیں اور نہ ہی مسٹر مشرف جی آپ سمیت اور کوئی امریکا نواز ، نواز وشہبازاورعمران سونامی ہی قوم کا مستقبل سنوارنے میں اپنا کوئی مثبت کردار اداکرسکتاہے آپ کوکوئی ضرورت نہیں کہ آپ پاکستان آئیں اور باقی کا پاکستان بھی امریکا کے ہاتھوں بیچ کر پھر پردیس کو بھاگ جائیں آج ساری پاکستانی قوم جانتی ہے کہ قو م کی بدحالی اور پریشانی پر آپ مگرمچھ کے آنسو کیوں بہارہے ہیں قوم آپ سے کہتی ہے کہ آپ آنسونہ بہائیں اور اِنہیں سنبھال کر رکھیں اپنے کسی اور برے وقت کے لئے سمجھے کہ نہیں سمجھے سمجھ جاؤ گے وقت آنے پر۔