سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رینٹل پاور کے حوالے سے حکومت کی کوئی پالیسی تھی ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے واپڈا کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ جب ملک میں نجی بجلی کمپنیوں کو دینے کے لئے پیسے نہیں تھے تو رینٹل کے معاہدے کیوں کئے گئے۔ چیف جٹس کا کہنا تھا کہ تاثر یہ ہے کہ رینٹل پاور بجلی بنائیں یا نہ بنائیں حکومت انہیں کرایہ ادا کرنے کی پابند ہے۔ خواجہ طارق رحیم نے موقف اختیار کیا ہے رینٹل پاور کی اسی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے جس کا فیصلہ کابینہ نے کیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ معاہدے کے مطابق فیول حاصل کرنے کی ذمہ داری کمپنیوں کی اپنی ہے حکومت اس کے لئے چار سے پانچ روز میں ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ چیف جستس نے یہ سوال بھی کیا کہ جو کمپنیاں بجلی نہیں بنارہیں انہیں بند کرنے کے بجائے حکومت دو سال سے خاموش کیوں بیٹھی ہے۔ خواجہ طارق رحیم نے مزید دلائل اور دستاویزات پیش کرنے کے لئے وقت دئے جانے کی استدعا کی جس پر مقدمے کی سماعت چودہ نومبر تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔