پاکستان ایک وفاق ہے جس میں تمام وفاقی اکائیوں کی برابر نمائندگی کیلئے سینیٹ کا ادارہ تخلیق کیا گیا ہے تا کہ ساری وفاقی یونٹوں کی نمائندگی موثر انداز میں ہو تی رہے۔ غیر جمہوری دور میں یہ نمائندگی بالکل ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ا ن وفاقی اکائیوں کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور یوں ملکی سالمیت سنگین خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔مشرقی پاکستان والوں کو بھی یہی شکائت تھی کہ وفاقی سطح پر ان کے صوبے کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور پنجاب پورے پاکستان کا ماما بن کر ہمیں اپنا غلام بنائے ہوئے ہے۔دوسرے صوبوں کو تہہِ دام رکھنے کی اس خو میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اب بھی دوسرے صوبوں کو وہ حقوق نہیں دئے جا رہے جن کے وہ حقدار ہیں جس کی وجہ سے علیحدگی پسندی کے رحجانات کو تقویت مل رہی ہے۔
بلوچستان اس وقت ا حسا سِ محرومی کے نام پر علیحدگی پسندی کی روش پر گامزن ہے۔ قیامِ پاکستان کے آغاز سے ہی عالمی طاقتوںکی بلوچستان میں دلچسپی تھی اور وہ بلوچستان کے حا لات پر گہری نظر رکھے ہو ئے تھے۔طلال بگٹی اور برہمداد بگٹی کی باگیں کس کے ہاتھ میں ہیں اور انھیں اسلحہ اور پیسہ کہاں سے ملتاہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ساری دنیا کو علم ہے کہ بھارت بلو چستان میں دلچسپی لیتا ہے اور امریکی اشاروں پر اس صوبے میں بد امنی کو ہوا دے رہا ہے ۔ امریکی ایوانِ نمائندگان میں بلوچستان کی قرار داد کا پیش کیا جانا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔
پاکستان کی حکومت اس ساری صورتِ حا ل سے بخو بی واقف ہے اور اس کے تدارک کیلئے ہمہ وقت سر گرمِ عمل ہے۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ بلوچستان میں ایجنسیاں بہت زیادہ فعال ہیں اور امن و امان کو قائم رکھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلح جدو جہد کے آثا ر پائے جاتے ہیں وہاں پر ایجنسیاں اور مسلح فوجی دستے ہی حا لات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں مسلح جدو جہد کو کچلنے کیلئے کیا فوج استعمال نہیں ہو تی؟ بالکل ہو تی ہے ۔ صرف کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی فوج موجود ہے جو کشمیریوں کی آزادی کی جنگ لڑنے پر انھیں اپنی سنگینوں کے سائے تلے رکھے ہوئے ہے 1980کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں کیا کچھ نہیں ہو ا تھا ؟ بھارتی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی نے بلو سٹار ر اپریشن کا حکم صادر کر کے مسلح جدو جہد کرنے والوں کو کچل کر رکھ دیا گیا تھا ۔
اس آپریشن نے ریاست کی بقا کویقینی بنانے کیلئے وہ کچھ کیا تھا جو کسی کے حیطہِ ادراک سے ماورا تھا ۔ صرف ایک فوجی اپریشن نے بھارتی پنجاب کو اس راہ پر ڈال دیا تھا جو جمہوریت اور امن کی راہ تھی۔ آج بھارتی پنجاب بھارت کا سب سے پر امن صوبہ ہے اور ایک سر دار(من موہن سنگھ) بھارت کی وزارتِ عظمی کی مسند پر برا جمان ہے۔مسلح جدو جہد یا قتل و غا رت گری مسائل کا حل نہیں ہو ا کرتی ۔ جمہوریت ہی وہ سنہری اصول ہے جسے آخرِ کار جیت نصیب ہو تی ہے بلوچستان کا مقدمہ لڑنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ اسی راہ کا انتخاب کر کے بلوچی عوام کی فلا ح و بہبود کو یقینی بنائیں۔
بلوچستان کی محرومی کے ذمہ دار بلوچی سردار ہیں جن کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ اقتدار ان کی پہلی ترجیح ہے ۔ ذاتی جیلیں اور مسلح ملیشیا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کہ ان کا ہدف عوامی فلا ح و بہبود نہیں بلکہ ذ اتی جارہ داری اور اقتدار کا حصول ہے۔ بیسویں آئینی ترمیم کے بعد تو اب صوبے بڑی حد تک خو دمختار ہو چکے ہیں ۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت بلوچستان کا حصہ بھی کئی گنا زیادہ کر دیا گیا ہے اور بہت سے ادارے جو پہلے وفاق کے زیرِ انتظام ہوا کرتے تھے انھیں صوبوں کے حوا لے کیا جا چکا ہے لہذا سیاسی جماعتوں کیلئے بڑا آسان ہے کہ وہ عوامی خدمت کے ذریعے اس احساسِ محرومی کا خا تمہ کریں جو علیحدگی کو ہوا دے رہا ہے۔
آغازِ حقوقِ بلوچستان کے پیکج کے اعلان کے بعد وفاق نے بھی ایک بڑی رقم امداد کے سلسلے میں بلوچی عوام کے مسائل کے حل کیلئے صوبائی حکومت کے حو الے کر رکھی ہے ۔سردار ا ختر مینگل اگر اپنے والد کے نقشے پر چلتے ہوئے اس راہ کا انتخاب کریں گئے جس میں بغاوت اور مسلح جدو جہد ہو گی تو پھر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ایک سیاست دان ہو نے کے ناطے انھیں سیاست دانوں پر اعتماد کرنا سیکھنا ہو گا۔ عدالتیں پاکستانی سیاست میں کچھ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔سارے فیصلے سیاسی قیادتوں نے کرنے ہو تے ہیں لہذا نھیں سیاست دانوں کے ساتھ اپنے روابط بڑھانے ہوں گئے اور انھیں اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ وہ بلوچستان کے احساسِ محرومی کو ختم کرنے میں بلوچی قیادت کا ساتھ دیں۔
اسلام آباد میں سردار ا ختر مینگل کے سیاسی راہنماؤں سے رابطوں کو میں قدر کی نظر سے دیکھ رہا ہوں کیونکہ یہی سیدھی راہ ہے جو انھیں مسائل کے حل کی طرف لے کر جا سکتی ہے۔ مہم جوئی مسائل کا حل نہیں ہے اور بلوچ قیادت کو اس سے اجتناب کرنا چائیے۔اگر باپ نے ماضی میں غلطی کا ارتکاب کیا تھا تو پھر بیٹے کو بالغ نظری کا مظا ہرہ کرتے ہوئے ماضی کی غلطی کو دہرانا نہیں چائیے ۔
سردار ا ختر مینگل کو اس راہ کا انتخاب کرچائیے جو جمہوری راہ ہے اور جس میں باہمی گفت و شنید ،مکالمے اور ڈا ئیلاگ سے کسی ایسے حل کی جانب پیش قدی کا پتہ ملتا ہے جس میں بلوچی عوام کی فلاح و بہبود کی نشاندہی ہوتی ہے ۔پاکستان ہم سب کا وطن ہے اور اس کی مضبوطی میں ہی ہم سب کی بقا ہے۔ ہمیں ہر حا ل میں اس کی مضبوطی کی خاطر سوچنا ہے کیو نکہ دنیا میں پاکستان ہماری پہچان ہے اور ہمیں اس پہچان کو مزید قوی اور مضبوط کرنا ہے۔
کچھ لوگ بلوچستان کی مثال مشرقی پاکستان سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں علم ہو نا چائیے کہ بلوچستان مشرقی پا کستان نہیں ہے۔مشرقی پاکستان کے حا لات یکسر مختلف تھے۔ بنگالیوں نے پاکستان کیلئے بے شمار قربانیاں دی تھیں اور جس زمانے میں تحریکِ پاکستان میں پنجاب اور سر حد مخالفت پر کمر بستہ تھے مشرقی پاکستان کے لوگ تنِ تنہا پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔انھیں حکومتی عمل داری سے دور رکھا گیا، ان کی آواز کو غیر اہم بنایا گیا اور ا نھیں اقتدار کے ایوانوں سے تضحیک آمیز انداز میں بے دخل کیا گیا۔وہ اکثریت میں تھے اور ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ کبھی ون یونٹ کے نام پر اور کبھی پیریٹی کے نام پر۔وہ یہ سب کچھ برداشت رہے لیکن ہر چیز کی ایک حد ہو تی ہے۔پنجاب کو کیا سر خاب کے پر لگے ہوئے تھے کہ وہ اقتدار پر قابض ہوجائے ۔
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے کے مصداق جن کا قیامِ پاکستان میں کو ئی کردار نہیں تھا وہی پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے اور جن کے لہو سے تحریکِ پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہو ئی تھی انھیں اچھوت قرار دے دیا گیا ۔تحریکِ پاکستان میں پنجاب کا کردار سب کے سامنے ہے لیکن ایک سا زش کے تحت پنجاب کے جاگیر داروں اور سرمایہ داوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مشرقی پاکستان والے منہ دیکھتے رہ گئے۔یہی وہ مقام ہے جہاں پر بنگالیوں نے ایک علیحدہ وطن کے قیام پر سوچنا شروع کر دیا۔دشمن کا دشمن دوست ہو تا ہے۔بھارت اور پاکستان کی دشمنی کسی سے چھپی ہو ئی نہیں ہے لہذا جب بنگالیوں نے علیحدہ وطن پر سوچنا شروع کیا تو بھارت نے دستِ تعاون بڑ ھایا اور بنگلہ دیش کے قیام میں اپنی اعانت پیش کی ۔1970 کے انتخا بات نے بنگالیوں کی مشکلات کو مزید آسان بنا دیا اور بھارت کو گل کھلانے کے مواقع میسر آگئے۔
عوامی لیگ کی واضح جیت نے اسٹیبلشمنٹ کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور بھارت کے منصوبہ سازوں کو بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستانیوں کے خلاف نفرت بھرنے کے مواقع میسر آگئے۔فوجی ایکشن نے بنگالیوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا ۔انھوں نے فوج کے خلاف مزاحمت کا منصوبہ بنا یا تو بھارت نے مکتی باہنی کی صورت میں اپنے فوجیوں کو مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا۔مکتی باہنی اور بنگالی ایک جانب تھے جب کہ پاکستانی فوج دوسری جانب تھی۔وطن سے دور وطن کی بقا کیلئے فوج نے بڑی پامردی سے پاکستان کی جنگ لڑی لیکن کوئی زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے فوج کا مغربی پاکستان سے رابطہ منقطع ہو گیااور فوج کی کمک اور رسد کا سارا ذخیرہ ختم ہو گیا۔پاک فوج کے پاس ہتھیار پھینکنے کے سوا کو ئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ پلٹن میدان میں بھارت فوج کے سامنے ہتھیار پھینکنے کا منظر کو ئی پاکستانی کبھی فراموش نہیں کر سکتا کیونکہ فوج نے ہتھیار اس دشمن کے سامنے پھینکے تھے جس پر انھوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی۔
بلوچستان کی صورتِ حال کسی بھی پہلو سے مشرقی پاکستان سے نہیں ملتی کیونکہ بلوچستان مشرقی پاکستان کی طرح ایک ہزار میل کی دوری پر نہیں ہے اور نہ ہی بلوچستان اور پاکستان کے درمیان بھارت واقع ہے۔ بھارت کو خبر ہے کہ پاکستان دسمبر 1971کے واقعات کو بھلا نہیں سکا اور وہ اپنا حساب چکتا کرنے کی دھن میں مگن ہے لہذ بھارت کسی ایسی صو رتِ حال میں نہیں جا ناچاہتا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی نوبت آجائے ۔ مشرقی بنگال پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا اور آبادی کے لحاظ سے اسمبلی میں اس کی اکثریت تھی ۔بلوچستان میں تو سرداروں اور نو ا بوں کا راج ہے اور اس میں جمہوری قدریں بہت کمزور ہیں جب کہ مشرقی پاکستان کی جمہوریت نوازی مسلمہ تھی اور پھر وہاں پر متوسط طبقہ سیاست میں بڑا فعال تھا ۔بلوچستان میں پختونوں اور ہزاروں کے علاوہ پنجابیوں کی بھی مظبوط نمائندگی ہے جو علیحدگی کی راہ میں رکاوت ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس صوبے میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت سے نہیں جیتتی بلکہ ہمیشہ ایک مخلوط حکومت ہی تشکیل پاتی ہے فوج اور ایجنسیوں کی حکومتی معاملات میں دخل اندازی ہے جس سے کچھ لوگوں کو شکایات بھی ہیں لیکن صوبے کی صورتِ حا ل کے پیشِ نظر ایسا ضرور ی ہے کیونکہ جس دن صوبے سے فوج نکالنے کی کوشش کی گئی اس دن بھارتی مداخلت اسی طرح شروع ہو جائیگی جس طرح مشرقی پاکستان میں ہو ئی تھی لہذا فوج اور ایجنسیوں کے لئے حکومت کا ہاتھ بٹا نا اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔