شمسی ایئر بیس آ ہاتھی مجھے مار

Air Base

Air Base

سانپ یا سنپولیے کو گھر میں رکھ کر اسے دودھ پلا پلا کرتگڑا کریں گے تو وہ لازماّ تمھیں حتیٰ کہ تمھارے ننھے بحپوں تک کو بھی ڈنگ مارے گا۔ سفید انگریزوں پر مبنی یہودی امریکی سامراج کو ننگِ دین و ننگِ وطن بزدل سازندے سابق آمر مشرف نے شمسی ایر بیس حوالے کی تھی جہاں سے وہ مسلمانوں پر کیٔ سالوں سے ڈرون حملے کرتا رہا اور صرف ہمارے پیارے ملک کے اندر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر کے ہمارے ہی شمشیر زن و دلیر جنگجووں کو مغربی بارڈر پر ہمارے ہی خلاف مورچہ زَن کر ڈالا۔٩١١ میں کسی مسلمان کا ہاتھ تھا یا نہ یہ راز ابھی تک معلوم نہ ہو سکا ہے۔وہ جو ہزاروں یہودی وہاں ملازمت کرتے تھے ان میں سے تو ایک بھی اس روزاس عمارت میں موجود نہ تھا۔(غالباََ سبھی نے چھٹی لے لی تھی)۔ اس طرح سے تو اس واقعے کے ذمہ داران کا” کُھرا” کس طرف جاتا ہے ساری دنیا سمجھتی ہے اس کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاََ افغانستان و عراق پر بمباری کر ڈالی گیٔ اور دیگر مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا ڈالی گیٔ۔مگر ہر حال میں سرخ وسفید سامراج ڈھیریوں میں بٹ کر رہے گا اور سرمایہ پرست امریکا کو ٹکٹر ے ٹکٹرے ہونا ہے کہ اسلام دشمن ظالمانہ سودی سرمایہ دارانہ نظام کو زمین بوس ہو کر فنا ہی ہونا ہے۔
شمسی ایر بیس بلوچستان میں کو ئٹہ سے ٢٠٠ کلو میٹر جنوب میں ہے جسے فرمانروا ابوظہبی شیخ زائدالنیہان کو ١٩٩٠ میں دیا گیا تھا۔یہ متحدہ ہندوستان کے حکمران مسلمان رنگیلے بادشاہوں اور مغل شا ہزادوں کے رنگ میں رنگے ہوے آج کے عربی شہنشاہوںکو اس لیے دی گیٔ تھی تا کہ وہ شکار کر کے اپنی عیاشیوں کا سامان کر سکیں۔مگر وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح اسے سفید بدمست ہاتھی کو دے بیٹھے اور پاکستان کا اسلام دشمن بھگوڑا آمر جرنل اپنی بانسری بجاتا رہا اور مال بٹور بٹور کراپنے بیرونی آقاؤںکے بنکوں میں جمع کرواتا رہا تاکہ بقیہ ماندہ غلیظ زندگی کے دیہاڑے رنگیلے مغل بادشاہوں کی طرح سرتان اور ٹھمک ٹھیلوں کے ساے میں گزار سکے۔قرآن کہتا ہے کے یہ یہودونصاری آپ کے دوست نہیں ہو سکتے مگر ہمارے نا اہل حکمرانوںفوجی ڈکٹیٹر مشرف اور اسے ١٠٠ سال تک وردی میں رکھنے کے نعرے لگانے والے ق لیگی حواریوں نے پہلے اور اب نام نہاد جمہوری چمپئینوں نے جان بوجھ کر انھیں اپنے پاک استھان(پاکستان)میں جگہ الاٹ کیئے رکھی اور اپنے ہی ہم وطنوں پر بم برسواتے رہے۔ایسی لیڈر شپ کو سمندر برً د ہو جانا چاہئیے تھامگر یہ تو استعفٰی دینے تک سے گریزاں ہیںشمسی ایربیس کو ایر فیلڈ شیخ صاحبان نے بنایا تا کہ وہ جیٹ طیاروں کے زریعے ناپید عقابوں و دیگر پرندوں کا شکار کر سکیں۔اسے مشرف کی منظوری سے یو ایس کی سنٹرل ایجنسی CIA کو ٢٠٠١ میں دیا گیا۔ یونا ئیٹڈ ایرفورس نے اسے ملٹری ایر بیس خفیہ طور پر افغانستان پر بمباری کے لیٔے تیار کر لیا۔چیف منسٹر مگسی حتیٰ کہ کور کمانڈر کو بھی اس جگہ کا دورہ کرنے کی اجازت نہ تھی۔جب اُسے ڈرون حملوں کے آپریشن کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔تو اس بات کے شواہد نہ ہیں کہ UAE کی حکومت نے واقعی واشنگٹن کو ڈرون حملوں کے لیے یہ جگہ دی تھی۔ القاعدہ اور طالبان وغیرہ کے خلاف آپریشن کرنے کی اجازت بہرحال مشرف نے دی تھی۔PPP کی سربراہی میں چلنے والی موجودہ حکومت بشمول  ق لیگ،اے این پی،ایم کیو ایم اور فضل الرحمانی تعاون نے اسے اب تک جاری رکھا ہوا تھا۔
تمام حکمران قوتیں صرف یہ بہانہ کر سکتی ہیں کہ ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا ہے کہ CIA نے جنگجووں کے خلاف جنگ میں ہمیں اعتماد میں نہیں لیا ہمارے ساتھ انٹیلیجنس میں مشورہ نہیں کیا۔کئی بلین روپے شمسی ایربیس پر امریکہ نے خرچ کئیے تھے۔٢٠٠٦ میں ہی GOOGLE EARTH نے وہاں یہ ڈرون طیارے کھڑے دکھا دیئے تھے لیکن ہم ڈالرزدہ لوگ تھے ٹُک ٹُک دیکھتے رہے اور جرات رندانہ نہ دکھا سکے پھر ڈرون کیونکر عام سویلین اور القاعدہ کے افراد میں تفریق کر سکتا ہے اُسے تو صرف بمباری کرنا ہوتی ہے خواہ بچے مریں عورتیں جھلس جائیں یا عام افراد لقمہء اجل بن جایئں۔اب تک اس جنگ میں ٠٠٠،٤٠ سے زائید پاکستانی اور ٥٠٠٠ سے زائید فوجی جان ہار گیئے ہیں۔اس بیس کے قریب امریکیئیوں کا خیال ہے کے ملا عمر چھپا ہوا ہے اور یہ چونکہ ایرانی بارڈر کے مشرق میں ١٠٠ میل دور ہے۔ وہاں سے ایران جسے یہ دشمن نمبر ون خیال کرتے ہیں۔اسکی اور اسکے اردگرد کے علاقوں کی انٹیلیجنس کرنے کی سہولت موجود ہے۔پھر چاغی جو کہ پاکستان کے نیوکلیئرٹیسٹ کی بیس ہے کے بھی قریب ہے اور ہماری تمام ایٹمی نقل و حرکت کی نگرانی یہاں تک کہ گوادر جو کہ بلوچستان کی سرحد کے بھی قریب ہے کی خفیہ نگہداشت کیئے ہوے تھے تاکہ پاکستان اور چایئنہ کی اتہحادی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں اور معلومات حاصل کرتے رہیں اور پاکستانی ساحلوں پر موجود ہماری بری فوج کی تمام تنصیبات پر نظر رکھ سکیں اور امریکی نیوی ایر کرافٹ انسٹالیشن،میزائل فائرنگ ،کروزرز ،سب میزائلز کی موجودگی بڑے پیمانے پر سمندری طاقت رکھ کر ہمارے ملک کی سکیورٹی اور سالمیت کو سخت خطرات موجود تھے پر اب چونکہ اُنھوں  نے ہماری سا  لمیت کو سرحدوں کے اندر موجود چوکی پر حملہ کر کے پاوئں تلے روند ڈالا ہے تو اب سلسلہء شیطانیت بند ہونا چاہیئے تھا۔اسنے ہمارے مطالبہ پر بادل نخواستہ اسے خالی کر دیا ہے مگر بلوچستان اور سندھ کے اندر سے انکی پروازیں ابھی تک گزر رہی ہیں کہ ہم نے انکے بند کرنے کا مطالبہ ابھی تک نہیںکیا ہے۔ہماری مُلک بھر کی دیگر ایرپورٹس انکے استعمال میںہیں۔
حالیہ بون کانفرنس میں خواہ پوری دنیا کے مُمالک ہی کیوں نہ جمع ہو جاتے افغانی مسئلہ کی اے بی سی بھی نہ پڑھ سکتے تھے کہ اصل مسئلہ تو طالبان اور امریکہ کے درمیان ہے۔کوئی خواہ کتنی ہی گارنٹیاں کیوں نہ دیتا رہے جب تک دونو ں اصلی حریفوں یعنی ملا عمر اور امریکہ کے مذاکرات نہ ہوں گے امریکن یہاں سے صحیح سلامت نکلنا بھی چاہیں تو نہیں نکل سکتے۔افغانیوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ تمام سفید چمڑی والے گوروں کو ختم کیا کرتے ہیں اور آخری سفید چمڑی والے کو بطورِگواہ لنگڑالولا کر کے بھجوا دیا کرتے ہیںجو کہ اپنوں کو جا کر بتا سکے کہ ہمارا کیا حشر ہوا ہے ہونا تو وہی ہے جس کی افغانیوں کو عادت پڑی ہوی ہے مگر امریکن ترلے لے رہے ہیں تو شاید پاکستان کی مخلصانہ کوششوں سے وہ اپنے ذ  ہنی طور پر پاگل ہو چکے فوجیوں کو نکال سکیں تو یہ اس صدی کا ایک نادر عجوبہ اور انہونہ واقعہ ہو گا۔اگر سابق فوجی آمر ڈکٹیٹر مشرف اور اسکے حواریوں اور آجکل کے NRO زدہ حکمران ٹولے کے گلے میں پھندا ڈالا جائے گا تو اپوزیشن کے خود ساختہ چمپئین شیر نواز اینڈکمپنی کو حکومتی زہریلی گولی کو آج تک منہ میں رکھے رکھنے ،برداشت کرنے اور نام نہاد جمہوریت کو بچانے کے حیلے بہانے تراشنے پر کیوں نہ سزا دی جائیگی ۔لازماََ ملے گی حُسین حقانی جیسے ناسُوروں کو بھی اُسکے آقائوں سمیت پاک وطن کے پاک جسم سے بذریعہ سر جری علیحدہ کر کے دور پھینک ڈالنا ہو گاکہ CIA کے ہزاروںایجنٹوں کو براہ راست ( بغیر کسی تحقیق و تفتیش) کے خود پاسپورٹ جاری کرڈالے, جو اب پاک استھان میں دندناتے پھر رہے ہیںاور ہر شہر میں کئی کئی ریمنڈڈیوس وارداتوں کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔حُسین حقانی کا یہ کہنا کہ اُسکے عزیز اور بزرگوں نے پاک فوج میں خدمت کی ہے بالکل ایسے ہی ہے کہ میر جعفر و صادق بھی تو متحدہ ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی افواج کے ہی کارندے اور مشیر تھے جو منافقت کر کے سامراج کے ایجنٹ بنے اور پھر اُس وقت کے ایسے ہی حُسین حقانیوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میںچھُرے گھونپے اور ٹیپو سلطان جیسے جری مسلمان تک کو قتل کروا ڈالا گیا۔میمو گیٹ کی وجہ سے ہر چیز عیاں ہو چکی ہے اب سانپ اور سنپولیوں کو مزید دودھ پلا کر تگڑا کر نے کی بجائے انکا سر کچل ڈالنا چاہیے وگرنہ یہ لوگ مزید ڈنگ مارکر پاکستان کی سا  لمیت پر غلیظ حملوں سے باز نہ رہ سکیں گے باالآخر تو سامراج کے ٹاوٹوں ،ذرداریوں اور حُسین حقانیوں نے سامراجی آقائوںکا ہی مہمان بن کر بھاگ جانا ہے مگر انکا لوٹا ہوا سرمایہ تو انکے بھاگنے سے پہلے وصول کر لیا جانا چاہیے وگرنہ تو سوئٹزر لینڈکے بنکوںمیں گیا ہوا سرمایہ نہ تو آجتک واپس ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا ابھی وقت ہے کہ انکا آخری “جانگیا” تک اُتروا لیا جائے تاکہ آئیندہ ایسی حرکات کا کوئی آنیوالا حکمران مرتکب نہ ہو سکے۔
اگر بھٹو کو خانہ نمبر 2 میں رکھ کر قابلِ گردن ذدنی قرار دیا گیا تھا تو آ ج کے حکمران بمعہ مشرف، اسکے اتحادی پاکستانی مسلما نوںاور فوجیوں کے قتل میں براہِ راست ملزم ہیںاور ملکی سا  لمیت کے خلاف سازشوں کے کرتا دھرتا بھی ہیں تو اُنکے قتل کی FIRمیںخانہ نمبر ١  میں رکھ کرکیوں نہیںاُنھیںتختہ دارپر کھینچا جا سکتا ۔عدلیہ بغیر کسی مصلحت کا شکار ہوئے فوراََ فیصلہ دے تا کہ غداری اور قتل و غارت گری کرنے کے مرتکب افرادکے گلوں میںرسے کھینچے جا سکیں(اب اس کے لیے مزید کسی ثبوتوں کی ضرورت نہ ہے) اگر مصلحت کا شکار ہو گئے تو پھر آئندہ ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں!! پہلے مشرقی پاکستان کا سانحہ ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ جب اگر تلہ سازش فوج نے پکڑی تھی تواُسی وقت غدار ابنِ غدار مجیب الرحمان کو کیفرِکردار تک پہنچا دینا چاہئیے تھاہماری معمولی غلطی نے ہم سے مُلک کا بڑا حصہ علیحدہ کر ڈالا تھا۔آج اگر ایٹمی طاقتوںپر امریکی کنٹرول کروانے اہم فوجی رہنمائوں کو ہٹانے بلکہ دنیا سے الوداع کروا ڈالنے جیسی دعوتیں دینے والوں کا کڑا احتساب نہ ہو سکا تو گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ تحریر :  ڈاکٹر میاں احسان باری