وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی کسی پارٹی کا مسلح ونگ برداشت نہیں کریں گے، آئندہ انتخابات میں بھی اتحادی حکومت بنے گی، ایم کیو ایم کی حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہئے۔ ان کا ارشاد ہے کہ ملک کو مشکل حالات اور کئی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہم نے یہ چیلنج خود قبول کئے ہیں ۔ جناب وزیر اعظم نے سرائیکی صوبہ کا ذکر کیا اور کہا کہ سرائیکی علاقہ 64سال سے حقوق سے محروم ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کی خواہشات کی تکمیل کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے ایک بار پھر دعوی کیا کہ ہم ٹریک سے نہیں ہٹے عوام کے مسائل حل کریں گے۔ انہیں برسر اقتدار آئے تین سال بیت گئے ہیں لیکن قوم کا ایک تو کوئی آدھا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا بلکہ لوگوں کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر ا عظم حکومتی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو وہاں اندھیروں کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ دلفریب وعدوں اور بڑھکیں مارنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا الزام ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ جمہوری نظام میں عوام سب سے بڑے فریق ہیں تو وہ دربدر مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں ۔ روٹی کپڑا تو دور کی بات ہے ہوشربا مہنگائی اور بے روزگاری نے ان کے چولہے تک ٹھنڈے کر دیئے ہیں۔ دہشت گردی اور بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کیا ملک کے حکمرانوں نے ان کا درد و دکھ دور کرنے کے لئے کوئی مثبت اقدام کیا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم حقیقت ہے اس سے انکار نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس نے اس حقیقت سے انکار کیا ہے۔ جناب وزیر اعظم ہی نہیں صدر مملکت مسلسل فرماتے رہتے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ پیپلز پارٹی والے اس اچھوتے خیال کو صدر زرداری کا مفاہمتی فلسفہ قرار دیتے ہیں جبکہ جمہوری نظام حکومت میں ایسے کسی تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جمہوریت میں تو ووٹوں کی اکثریت پر منتخب ہونے والی سیاسی جماعت کے سر پر حکمرانی کا تاج سجایا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ سیاسی جماعت ایک انتخابی منشور پر الیکشن جیتتی ہے جس پر اقتدار میں آنے کے بعد اسے عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی دوسری جماعت یا جماعتوں کو شریک اقتدار کر لیا جائے تو اتحادی جماعتوں کیساتھ اپنے انتخابی منشو رپر کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنا کوئی ایجنڈا اور منشور ہی نہیں ہے۔ جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ برطانیہ میں وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن کی حکومت کو ایوان میں صرف ایک ووٹ کی اکثریت حاصل تھی اور اس نے پانچ سالہ مدت پوری کی۔ دور نہ جائیں پڑوسی ملک کی بات ہے کہ وزیر اعظم واجپائی کی اکثریت چند ووٹوں سے کم ہو گئی، ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی تھی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ملک میں مڈٹرم انتخابات کرائے گئے۔ ہمارے ملک میں تو ایسا سب کچھ عوام کو فریب دینے اور حقائق سے فرار کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبانی جمع خرچ کے سوا موجودہ حکومت ملک و قوم کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکی۔ ایک طرف عوام ہیں کہ مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم نے سرائیکی صوبہ کا شوشا چھوڑ رکھا ہے اور دفرماتے ہیں کہ نئے صوبے سے ملک کمزور نہیں ہو گا لیکن اس کے سا تھ ہی یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ دوسرے صوبے کی بات کرنے والے سرائیکی صوبے کے مطالبہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ سرائیکی صوبے کی بات کرنے سے عدم توازن پیدا ہو گا ۔ ہزارہ صوبہ کی تحریک موجود ہے اور بہاولپور صوبہ کا مطالبہ وحدت مغربی پاکستان کے خاتمہ کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور اب وزیر اعظم کی جانب سے سرائیکی صوبہ کی بات کرنے سے کئی اور آوازیں اٹھی ہیں۔ سرائیکی صوبہ صرف ملتان اور اس کے گرد و نواح کا نام نہیں ہے بالائی سندھ، شکارپور وغیرہ ، بلوچستان اور صوبہ خیر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان سرائیکی بیلٹ کا حصہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے سیاسی حلقے سرائیکی صوبہ میں شمولیت کے حامی ہیں دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے اس کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سرائیکی عوام کو جاگیرداروں کے چنگل میں جانے نہیں دیں گے۔ بہاولپور صوبہ کی تحریک والے کہتے ہیں کہ ہمیں ملتان صوبہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں پہلے ہمیں ہمارا آئینی اور قانونی حق دیا جائے۔ وزیر اعظم کا الزام ہے کہ کچھ عناصر ایسے ہیں جو دوسرے صوبوں کی تقسیم کا شوشا چھوڑ رہے ہیں جو ایک سازش ہے لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ وزیر اعظم بھی تو سرائیکی صوبہ کی بات کر کے پنجاب کی تقسیم کی بات کر رہے ہیں۔وہی کام جو آپ کررہے ہیں کوئی دوسرا کرے تو وہ سازش کیسے ہوگیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ایک نئی بات یہ بھی کی ہے کہ کسی پارٹی کا مسلح ونگ برداشت نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس بات کی واضح نشاندہی نہیں کی ۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی جماعت دیدہ دانستہ ایسی باتیں کر کے ملک میں ایک نیا فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ لوگوں کے بنیادی مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ ایسی فضول مشقوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ عوام میں پہلے ہی حکمرانوں اور ان کی جماعت کی ساکھ ختم ہو چکی ہے، اگر کچھ بچا کھچا ہے تو اس طرح کی بے سر و پا باتوں سے وہ بھی ختم ہوجائے گی اور وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے پاس کچھ نہیں بچے گا جو آئندہ انتخابات میں وہ عوام کے سا منے پیش کر سکیں۔ وہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بی بی شہید کے مشن اور وژن کا بڑا ڈھنڈوا پیٹتے ہیں، کیا کبھی انہوں نے خلوص دل سے اس پر غور کیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کسی مشن اور وژن کے بغیر ہے۔ ہم اس سلسلے میں مسلسل یہ استدعا کرتے رہے ہیں کہ ملک و قوم کے لئے نئے مسائل پیدا کرنے کے بجائے ہوشربا گرانی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور سرمائے کے فرارع جیسے مسائل پر توجہ دی جائے توزیادہ بہتر ہوگا۔ کیا وزیر اعظم نے کبھی سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا ہے کہ ان کے دور میں ملک کاپورا نظام ہی مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ ان گزرے تین سالوں میں ملک اور عوام کے ساتھ جو بیت گئی اس سے پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔ جناب وزیر اعظم صرف ایک بار اونچے ایوانوں سے باہر نکل کر مظلوم اور بے کس عوام کی حالت کو غور سے دیکھیں ، ان کے مسائل و مصائب جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔