طاہر القادری کا لانگ مارچ اور مثبت صحافت کی توقعات معاشرے سے مراد ایک فرد ہے اگر ایک فرد کی بھی ریاست میں آواز اٹھے یا درخواست دے تو اس کی بھی شنوائی ہونی چاہیے اگر وہ درست سمیت میں ہو تو معاشرے کو اس کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر اس کی سمیت کو کامیاب کر نا چاہیے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے تک یہ سرکاری سطح تک اگر کوئی درخواست پیش کرتا تو حکومتی ادارے اس کا جواب دینا فرض اولین محسوس کرتے تھے۔ لیکن یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا اور فرد کو افراد میں جمع ہوکر اپنی آواز اٹھانے کی نوبت آئی۔ ڈاکٹر طاہر القادری پر میڈیا کے ذریعے یہ بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا ایجنڈا کیا ہے۔
آپ کو رقم کس نے دی ہے ، آپ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں ، کیا میڈیا کا یہ کردار درست ہے، بعض پروگراموں میں یک طرفہ کردار کشی تک بھی گریز نہیں کرتا ، جو سامعین اور قارئین کے ساتھ ہیں کیا ان کی دل آزاری نہیں ہوتی ۔ میڈیا معاشرے کی آنکھ اور کان کی حیثیت رکھتا ہے بد قسمتی سے میڈیا میں ایسے افراد شامل ہو چکے ہیں جو شاہ کے وفادار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام میں واضع ہے کہ اگر آپ اپنے سے طاقت ور کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو اس کو دل میں برا کہیں یہ ایمان کی سب سے کمزور شرط ہے۔ میڈیا بڑا طاقت ور ہے اسے اپنی طاقت مثبت اور مضبوط پاکستان بنانے میں سرف کرنی چاہیے اور پاکستان کی قوم کو ہر لحاظ سے اپنا کردار ادا چاہیے کچھ چینل کر بھی رہے ہیں۔ ہر چیز کو خراب پیش کرنا اور پھر اس کا حل نہ بتانا یہ نا انصافی کے ذمرے میں آتا ہے۔
معروف پروفیسر اقبال گل نے کہا ہے کہ میڈیا کا ہر لفظ دیر پا اثر رکھتا ہے اور صحافت محتسب کا کردار ادا کرتی ہے اور شعور اور آگہی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس میں خلوص اور نیب ، لگن اور محنت اضافی خوبی میں شمار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسے ریاست کا چھوتا ستون کہا جاتا ہے لیکن ہر صورت اس کو مثبت ہونا چاہیے۔ کردار کشی اور غیر معیاری صحافت اس کو جلا نہیں بخشتی ، جو میڈیا بھی عوامی امنگوں اور خواہشات کے منافی ہوتا ہے وہ زیادہ دیر نہیں چلتا ، صحافت اور معاشرہ یک جان دو قلب ہیں۔ تعمیر قوم میں صحافت کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ صحافت اور جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ صحافت ایک وسیع میدان فکر و نظر ہے اور اس کا معاشرے ، سیاست اور جمہوریت سے گہرا تعلق ہے۔
Quetta tragedy
ان ساری حقیقتوںمیں سانحہ کوئٹہ پوری دنیا میں صحافت کے ذریعے ہی متعارف ہوا جس نے انسانیت سوز واقعہ کو متعارف کرایا۔ پاکستان میں سیاست چند خاندانوں تک محدود رہی اور جمہوریت کو صحیح طرح پھلنے پھولنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔ لیکن تمام حالات میں جمہوریت کو ایسی ترامیم لانی چاہیے کہ سانحہ کوئٹہ کا نوحہ 5دن کی بجاے فوری حل ہوتا لیکن پوری جمہوریت میں کسی کے پاس یہ اختیار ات بھی نہیں تھے کہ اس نازک مسئلے کو حل کرسکے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا اس وقت انتخابی اصلاحات کا ہے میڈیا اور عوام کو سمجھ آئے گا ڈاکٹر طاہر القادری کے آواز بلند ہوتی جائے گی۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ صرف رولینے سے قوموں کے نہیں پھرتے ہیں دن خوں فشانی بھی ہے لازم اشک افشانی کے ساتھقوم انتخابی اصلاحات کے لیے اور آج کے لانگ مارچ کے لیے اگر ان حالات میں اسلام آباد نہ پہنچ سکیں تو اپنے گھرکے قریب اپنا اجتماع ضرور کریں سانحہ کوئٹہ پوری قوم کو غم میں نڈھال کئے ہوئے ہے ان لاشوں کی بے حرمتی پر بے پنا ہ پر امن احتجاج کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں مجھے معلوم ہے کہ لانگ مارچ میں عدم شرکت کی مجبوریوں پر لیکن اس قومی ایجنڈے کے لیے میں تنہا محسوس نہ کروں اگر میں شہید ہو گیا تو پوری قوم اس مثبت کام میں میرے خیالات کے ساتھ متفق ہو ںتو اس عزم کو قائم رکھے۔