ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی گروپ ‘رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز’ نے ترکی میں میم 12 ایرانی صحافیوں کی زندگی کو لاحق خطرات پر تنبیہ کرتے ہوئے انہیں ہرممکن تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
صحافتی تنظیم کا کہنا ہے کہ ترکی میں موجود ایک درجن ایرانی صحافیوں کو کئی سنگین نوعیت کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ ایرانی رجیم کا صحافیوں اور اپوزیشن کی بیرون ملک شخصیات کے حوالے سے ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں۔ ایرانی حکومت کے مخالفین کو بیرون ملک اغواء اور قتل کے جرائم کا سامنا رہا ہے۔ ترکی میں موجود ان ایک درجن ایرانی صحافیوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
ہفتے کے روز’مراسلون بلا حدود’ نے ترکی کی حکومت اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو مکتوب ارسال کیے جن میں ان سے ملک میں موجود ایک درجن ایرانی صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں کسی دوسرے اور محفوظ ملک کی طرف سفر کرنے کی سہولت فراہم کرنے کاک مطالبہ کیا گیا۔
مکتوب میں کہا گیا کہ ترکی کا ایمی گریشن ڈیپارٹمنٹ ایرانی صحافیوں کے مسائل کے حل کا ذمہ دار ہے تاہم ترکی میں عارضی طورپرپناہ لینے والے ایرانی صحافیوں کے تحفظ کے معاملات میں بہت زیادہ لاپرواہی اور تاخیر کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ صحافی اور بلاگر شراغیم زند نے ایک ای میل میں ‘مراسلون بلاحدود’ کو بتایا کہ ترکی آنے کے بعد اسے ایرانی رجیم کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔
اس نے لکھا کہ اسے ایران میں گرفتار کرکے اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سنہ 2014ء میں وہ بھاگ کر ترکی آگیا۔ ترکی میں قیام کے دوران اس نے ‘ایر’ اور فردا ریڈیو کے ساتھ کام کیا اور ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اسے ایرانی حکومت کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ایرانی صحافی نے بتایا کہ ترکی میں ساڑھے پانچ سالہ قیام میں وہ ایک لمحےکے لیےبھی پرسکون نہیں رہا بلکہ اسے ہر وقت جان سے مار دینے کا خوف لاحق رہتا ہے کیونکہ ایرانی انٹیلی جنس ادارے مسلسل اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ انہوں نے کئی بار مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔
عالمی صحافی تنظیم کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی طرح ترکی میں بھی کرونا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس وباء کے نتیجے میں ترکی میں موجود ایرانی صحافیوں کی زندگیوں کو زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔