اسلام آباد: صدر کے وکیل وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننا جسٹس ریاض کا حق ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی سے کسی جج کے نام کی منظوری کے بعد وزیراعظم یا صدر کو اختلاف کا اختیار نہیں۔
سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کی۔ صدرکے وکیل وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور سپریم کورٹ بار کے صدر کوبلایا جائے جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ صد رصرف رائے مانگ سکتا ہے اور سپریم کورٹ رائے دے سکتی ہے۔
وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ صدر رائے مانگ سکتا ہے یا مشورہ؟اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ معاملہ آئین نے پہلے ہی حل کر لیا تھا ریفرنس کی کیا ضرورت تھی۔ وسیم سجاد نے کہا کہ صدر نے بعض معاملات پر ابہام محسوس کیا اور عدالت سے رجوع کرلیا جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ کیا صدر چاہتے ہیں کہ ہم پہلے فیصلے پر نظر ثانی کریں؟ صدر کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اختیار حاصل ہے اگر وہ محسوس کرے کے فیصلے میں غلطی ہے تو اسے درست کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدرکے ذہن میں ابہام ہے۔ اس لیے عدالت سے رجوع کیا جس پر عدالت نے کہا کہ صدرنے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججزکے بارے میں آرڈرپاس کر رکھا ہے جو ہمارے سامنے ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ صدر نے سنیارٹی کا تعین کس بنیاد پرکیا۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ایک ساتھ حلف اٹھانے والے دو ججوں میں سے عمرمیں بڑا جج سینئرہوگا۔ جسٹس ریاض احمد خان عمرمیں بڑے ہیں۔ اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننا ان کا حق ہے ۔1987 میں سیکرٹری قانون نے ایک نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا جس کے تحت ایک ساتھ ججوں کی تقرری پر سنیارٹی کا تعین عمر کے حساب سے ہوگا۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ میں 5 ججوں کی تقرری اور سنیارٹی کا تعین عمر کی بنیاد پر کیا گیا۔ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ اگر بار سے لیے گئے ججوں کو جونیئر رکھا جائے تو وکلاء کبھی سنیئر جج نہیں بن سکتے۔ سپریم کورٹ کا کہناہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر اور وزیراعظم کے پاس ججوں کی تقرری میں اختلاف کا اختیار نہیں رہا.کل اٹارنی جنرل دلائل دیں گے.