لانگ مارچ اور دھرنا ، تحریر اسکوائر اور مخالفین کی تنقیدیں

Tahir Ul Qadri Long March

Tahir Ul Qadri Long March

شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنی حیات میں ایک موقع پر فرمایا تھا کہ”سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُور رَس ذمہ داریاںہوتی ہیں اور سیاست قوم کے وجود میں اِس کے اِحیا کی بنیاد ہوتی ہے” اور اِسی طرح اِن کا دوسرا قول یہ ہے کہ ”صحافی جو حق و سچ کے علمبردار ہوتے ہیں اور اصلاح معاشرہ اور اُمور مملکت میں اپنے قلم سے جس طرح اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں اِن پر یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ سیاست دانوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کریں اور سیاست دانوں کو بتائیں کہ وہ سیاست کرناچاہتے ہیں تو وہ وی سی آر اور ٹی وی دیکھنے کے بجائے کتابیں اور تاریخ پڑھیں”بلاشبہ محترمہ نے جو فرمایا وہ سب اپنی جگہہ سو فیصد درست ضرور ہے مگر اِن کے یہ دونوں اقوال دنیا کے اُن ممالک کے لئے کار آمد ثابت ہوئے ہیں جہاں ہر کام نیک نیتی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور جس معاشرے میں ایسا ہوتا ہے وہاں کے طور طریقے اور اطوار بتا دیتے ہیں کہ اِس معاشرے میں ہر فرد کی ذہنی صلاحیت کتنی مثبت اور تعمیری ہے۔

اُس ملک اور معاشرے میںبسنے والے افراد اپنے ملک اور قوم کے لئے کتنے مخلص ہیں ، یوں وہاں کے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور صحافیوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہوتا ہے اور یہ سب جہاںاپنے اپنے دائرے کار میں رہ کر اخلاقی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے اپنے حصے کا کام کر رہے ہوتے ہیں تو وہیں جہاں ضرور پڑتی ہے تو وہ ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے خاطر مخلص ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ صلح و مشورے سے معاون و مددگار بھی ثابت ہوتے ہیں مگر افسوس ہے کہ شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے اِن دونوں اقوال کا عملی جامہ مجھے اپنے یہاں تو زیادہ سے زیادہ (گزشتہ 65 سالوںسے) اور کم ازکم موجودہ حکومت کے پونے پانچ سالوں میں (یعنی 23 دسمبر 2012کو ڈاکٹر طاہر القادری کے مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے فقیدالمثال جلسے سے قبل تک تو)کہیں نظر نہیں آیاکیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 22 دسمبر تک میرے ملک کی موجودہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اپنی روحانی قائد شہیدبے نظیر بھٹو صاحبہ کے اول الذکر قول کی روح کو سمجھنے سے قاصر نظر آئے اور دوسرے قول کے ایک حصے کے سحر سے باہر نکل کر کتابیں اور تاریخ پڑھنے سے عاری رہے ہیں۔

مگر یہاں میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ امر ملک اور قوم کے لئے یقیناً قابلِ ذکر ضرور ہے کہ آج موجودہ حالات میں ہمارے یہاں جس قسم کی جاگیررانہ اور موروثی سیاست مروج ہے اِس کی تبدیلی کے لئے علامہ مولانا ڈاکٹر طاہر القادری نے آواز بلند کر دی ہے جو محترمہ کے اول ذکر قول کے عین مطابق سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُوررَس ذمہ داریوں سے خوب واقف ہیں اور یہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سیاست قوم کے وجود میں اِس کے اِحیا کی بنیاد ہوتی ہے اور اِن کی جو ایک اور خاص بات وہ یہ ہے کہ یہ محترمہ کے دوسرے قول کے اساس کے بھی عین مطابق کتابیں اور تاریخ پڑھتے ہی نہیں ہیں بلکہ یہ مذہب اور تاریخ کے حوالوں سے سیکڑوں کتابوں کے مصنف بھی ہیں آج جب علامہ طاہر القادری نے اپنی اِن ہی خداداد صلاحیتوں کے باعث موجودہ حکومت کے اختتام کے آخر لمحات میں محترمہ کے اِن دونوں اقوال پر لیبک کہتے ہوئے ملک میں ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کے سفر کا آغاز کیا ہے۔

PPP PMLN

PPP PMLN

تو اِن کی اِس آواز کو دبانے کے لئے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) جو پچھلے پانچ سالوں سے کئی معاملا ت میں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر مک مکا کا مظاہر کرتی آئی ہے اور ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے معاملے میں بھی پہلے ہی یہ دونوں جماعتیں ڈیل کرچکی ہیں اور آج ایک مرتبہ پھر اِن دنوں ہی جماعتوں نے طاہر القادری کے سفرِ انقلاب کی تحریک کے خلاف ایک دوسرے کو تھپکی دیتے ہوئے 14جنوری سے قبل اور اِس کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور واقعات سے نمٹنے کے خاطر ایک دوسرے کی کمر کو مضبوط کرنے کا تہیہ بھی کر رکھا ہے۔ جبکہ اُدھر دوسری جانب ایک انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے کچھ صحافی اور نجی ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز جنہیں مفادات کے سمندر میں غوطہ زن رہنے والے سیاست دانوں کی اپنے قلم اور اپنی دانش سے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے قول کے مطابق اصلاح کرنی چاہئے تھی اوراِن حضرات کو محترم المقام عزت مآب قبلہ طاہر القادری کے 23 دسمبر مینار پاکستان لاہور اور یکم جنوری 2013کو جناح گراؤنڈ کراچی میں ہونے والے خطابات کو مثال بناکرپیش کرتے ہوئے علامہ کے قصیدے پڑھنے چاہئے تھے آج اُلٹا یہ لوگ علامہ طاہر القادری سے بُغض للہی میںکسی اور کے ایجنڈے کی تقویت کے خاطر جانبداری کا ایسا مظاہرہ کئے ہوئے ہیں۔

(جو اِنہیں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے نہیں کرنی چاہئے ) اور آج اِن کی اپنے پیشے سے ناانصافی اور جابنداری کی حد تو یہ ہوگئی ہے کہ یہ علامہ طاہر القادری کا پورانام لئے بغیر اِنہیں کینیڈا اور دیارِ غیر سے آئے ہوئے قادری کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں اور آج یہی صحافی حضرات اور اینکر پرسنز اپنی گردنیں تان تان کر اور اپنے سینے پھولا پھولا کر ماضی اور موجودہ جاگیردار حکمرانوں اور سیاستدانوں اور موروثی سیاست کے علمبردار وں کے ایجنڈوں اور اِن کی” طاہر القادری کے سفرِ انقلاب کی آڑ میں آئندہ ملک میں ہونے والے انتخابات ملتوی کرانے جیسی زبان بولتے ہوئے” 65 سالوں سے ملک کو لوٹنے والے سیاست دانوں اور جاگیرداروں کے سیاسی نظریات اور افکار کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم میں مصروف عمل ہیں اور موجودہ حالات میں علامہ طاہر القادری کے ایک صاف سُھترے ” سیاست نہیں ، ریاست بچاؤ” ایجنڈے کے خلاف تنقیدوں کے پہاڑ کھڑے کئے ہوئے ہیں اَب اِس منظر اور پس منظر میں ، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ کسی کے عیب کی تلاش میں اپنے تئیں یا کسی کے بہکاوے میں آکر لگے رہتے ہیں تو اِنہیں کوئی نہ کوئی عیب دوسروں پر تنقید اور اعتراض کرنے کے لئے مل ہی جاتا ہے کیوں کہ بقول ڈزرائیلی”دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی اصلاح ہے اور سب سے آسان دوسروں پر نکتہ چینی ہے”۔

Tahir Ul Qadri PML Q

Tahir Ul Qadri PML Q

اگر آپ میرا یہ کالم پڑھنے کے بعد یہ اور سب کچھ سمجھ گئے ہیں تو میں یہ عرض کرتا چلوں کہ براہِ کرم اَب علامہ طاہر القادری کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کاسلسلہ بن کرکے اِس وقت کا انتظار کیا جائے جب 14جنوری 2013کو علامہ اپنے حامیوں ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ق) اور دیگر کے ہمراہ ملک میں انتخابی اصطلاحات ، جاگیردارانہ اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لئے پُرامن لانگ مارچ کے بعد اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور تحریر اسکوائر سے ملک کو حقیقی جمہوریت کی جانب لے جانے والے نظام کو رائج کرائیں گے۔

تحریر : محمداعظم عظیم اعظم