ماضی میں سپریم کورٹ نے فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو جائز قرار دیا اور ججوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھائے: فخر الدین جی ابراہیم
پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ ) فخر الدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ عشروں پہلے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک میں سیاسی انتشار میں اضافہ ہو گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت نیمقدمہ سولہ سال تک التوا میں رکھنے کے بعد انتخابات کے قریب اس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں اس فیصلے سے ملک میں سیاسی انتشار بڑھے گا اور اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا اب وقت ہے کہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہر کسی سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سب سے بھی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہوں گی۔
فخرالدین جی ابراہیم نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو جائز قرار دیا اور ججوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھائے۔
فخرالدین جی ابراہیم نے کہا: ہمیں نہیں معلوم کی ایوب خان آئے تو کیا ہوا، ہمیں نہیں معلوم کی ذوالفقار علی بھٹو کو کیسے پھانسی پر لٹکایا گیا، ہمیں نہیں معلوم کی ضیاالحق صاحب کے دور میں کیا ہوا۔ بھائی یہ وقت ہے پرانی باتوں کو بھول کر نیا دور شروع کرنے کا۔
پیچھے دیکھنے میں فائدہ نہیں
ہمیں نہیں معلوم کی ایوب خان آئے تو کیا ہوا، ہمیں نہیں معلوم کی ذوالفقار علی بھٹو کو کیسے پھانسی پر لٹکایا گیا، ہمیں نہیں معلوم کی ضیاالحق صاحب کے دور میں کیا ہوا۔ بھائی یہ وقت ہے پرانی باتوں کو بھول نیا دور شروع کرنے کا۔
انہوں نے کہا کہ اب ماضی میں رہنے کی بجائے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا الیکشن کمیشن کسی ایسے سیاستدان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا جس پر رقم لینے کا الزام ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت کسی سیاستدان کے خلاف کارروائی کی گنجائش نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے خود اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ رقوم کی تقسیم کا معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کیا جائے جو تحقیق کرے گا کہ کس نے کس سے رقم لی۔
فخر الدین جی ابراہیم نے کہا سپریم کورٹ نے خود کو بھی متنازعہ بنا لیا ہے اور الیکشن سے پہلے ملک میں ایک اور تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔
اس سے قبل فخر الدین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ کی نااہلی سے متعلق ابھی تک ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے الیکشن کمشن کو ریفرنس نہیں بھیجا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملاقات میں آئندہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں سیشن ججز کو بطور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تعینات کرنے کی استدعا کی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے سیشن ججز کو بطور ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسر تعینات کیا جائے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے اس ملاقات سے متعلق جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو بتایا ہے کہ سنہ دو ہزار نو میں بنائی جانے والی نیشنل جوڈیشل پالیسی کے تحت ججز کو انتظامی امور انجام دینے سے روکا گیا ہے جس کا مقصد عدلیہ کو بدعنوانی کے الزامات سے بچانا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر حکام کو اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ اس درخواست کو تین نومبر کو نیشنل جوڈیشل پالیسی کی کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔