بقول پاکستان کی عدلیہ کے کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عدالت کی حکم عدولی کی۔ اس لئے ان کو نااہل قرار دیا گیا اور پھر ان کو سزا کے طور پر تیس سیکنڈ کی تفریحی سزا دے کر ان کو بری کر دیا گیا۔ یعنی گیلانی عدالت کی طرف سے تجویز کردہ تفریحی سزا کوٹ کے احاطہ میں کاٹ کر آئے ہیں۔ جیسے ہی وہ اپنی تفریحی سزا سے بَری ہوئے کوٹ کے احاطہ میں و باہر ان کا گلاب کے پھولوں سے استقبال کیا گیا۔ عدالت کا یہ فیصلہ انصاف پر نہیں بلکہ سیاست پر مبنی فیصلہ تھا کہ ایک منتخب وزیر آعظم کو جہاں فوج کے ذریعہ ہٹایا جاتا تھا۔ وہیں اب یہ کوشیش عدالت کے ذریعہ سے کی جا رہی تھی۔ عدالت کی یہ کوشیش ازخود نہیں بلکہ اندورنی و بیرونی دباؤ کے تحت تھی۔ اندورنی دباؤ تو یہ ہے کہ حذب اختلاف اقتدار کے گلیاروں تک پہنچنے کیلئے بے چین و بے قرار ہے۔ عدلیہ کے فیصلہ کے بعد سیاسی لیڈروں کی منشاء بھی منظر عام پرآ گئیں اور بیرونی دباؤ یہ ہے۔ بڑی طاقتیں پاکستان میں مضبوط جمہوریت کے خلاف ہیں۔ جمہوری ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ ان طاقتوں کو شمسی ائربیس خالی کرنا پڑے یہ گوارہ نہیں۔ وہ اپنی اس بے عزتی کا بدلہ یوسف رضا گیلانی کو اقتدار سے محروم کرکے لینا چاہتی ہیں۔ مگر ان کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی۔
بقول پاکستانی وزیر آعظم یوسف رضا گیلانی کے کہ انہیں آئین کی آرٹیکل 248(1) کے تحت ان کو مکمل آزادی ہے۔ اگر واقعی یہ دفعہ موجود ہے۔ تو تازہ یہ عدالتی فیصلہ جمہوریت کی آزادی پر حملہ ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم کے یہ آزادی ان کو پارلیمنٹ نے عطاکی ہے۔ وہ ہی ان کا خصوصی اختیار چھین سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ آزادی و اختیار عدالت کے ذریعہ چھینا جارہا ہے تو یہ پھر پاکستان میں پھر نئے طرز پر فوجی انقلاب کو دعوت دی جارہی ہے۔ عدلیہ نے یہ فیصلہ صادر کرکے یہ دیکھانے کی کوشیش کی ہے۔ کہ عدلیہ پارلیمنٹ سے اوپر ہے۔ وہ اس کے فیصلوں میں فریق بھی ہے۔عوامی نمائندے اس کے تابع ہیں۔ تو یہ غلط نظیر قائم کی جارہی ہے۔ اس فیصلہ سے ایسا لگ رہا ہے۔ کہ عدالت اب پاکستان کی پارلیمنٹ پر حملہ آور ہے۔ عدالت سے سزا یافیہ مجرم رحم کی اپیل کیلئے صدر جمہوریہ کے پاس کیوں جاتا ہے۔ اس لئے صدر جمہوریہ کا دائرہ اختیار عدالت کے ججوں سے بڑا ہے۔ تو پھر عدالت میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے لوگ طفلی کردار ادا کیوں کر رہے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کو اقتدار سے ہٹانے کا کھیل جو فی الوقت عدلیہ کے ذریعہ کے کھیلا جارہا ہے وہ بہت خطرناک ہے ایک جمہوری وزیراعظم آئین پاکستان کے حدود میں رہتے ہوئے صدر کے خلاف جب تک وہ عہدائے صدارت فائز ہیں لب کشائی تو کجا ان کے خلاف خطوط لکھنے کی اخلاقی جسارت بھی نہیں کر سکتا تو پھر عدالت وزیر آعظم کو توہین عدالت کا مجرم بنا کر ان کو اقتدار سے ہٹانے کا کھیل کیوں کھیل رہی ہے۔ مقصد صرف یوسف رضا گیلانی کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔ تو یہ کام پارلیمنٹ میں حذب اختلاف بھی کرسکتا ہے۔ عدم اعتما د کی تحریک لاکر ان کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ وہ ہی ان کو صدر کے خلاف کاروائی کرنے کے اقدامات طے کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ عدالت نے وزیر آعظم کو ایسا حکم دیا جس حکم کی آئین پاکستان کے تحت پابندی ہے۔ عدلیہ آئینی طور پر پارلیمنٹ کی تابع ہے۔ گویا غلط حکم کی تکمیل ہوئی۔ توحج صاحبان کو جاری کر دی غلط حکم پر ندامت اب ہونی چاہئے۔ اس صورت میں وزیراعظم پاکستان توہین عدالت کے مرتکب ہی نہیں ہوئے۔ کیونکہ حکم خامیوں سے پُر تھا۔ عدلیہ غلط روش پر تھی۔ اس لئے وہ اپنے مشن میںناکام ثابت ہوئی۔
بہرکیف عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اپنے تابع بنانے کی جو کوشیش کی یقینا اس میں وہ بُری طرح ناکام ہوئی۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی مضبوطی کا وہاں کے عوام کو اچھی طرح احساس ہوا۔ کہ عوام منتخب اداروں پر اپنا یقین و اعتماد رکھتے ہیں۔ فی الوقت پارلیمنٹ پر عدلیہ کے ذریعہ حملہ ایک شرارت تھی۔ اس شرارت کرنے والے اندرونی لوگوں کو معاف کر دیا جائے مگر بیرونی لوگوں پر سیکنجہ کسا جائے۔ جس سے ایسی گھنائونی شرارت دوبارہ وقوع پذیر نہ ہو سکے۔ جس سے پاکستان میں جمہوریت مذید مضبوط و پائیدار ہو سکے۔