ایمان دراصل عشق کی اعلی ترین منزل ہے۔یہ وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر انسان اپنا وجود تک بھول جاتا ہے۔ محبوب کی رضا، اور اُس کی خوشنودی کے لیے وہ ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرنے کی نہ صرف قوت رکھتا ہے بلکہ ان صعوبتوں میں بھی اسے لذت و سرور حاصل ہوتا ہے۔ عشق وہ جذبہ ہے جو دنیا کی تمام آسائشوں سے بے نیاز کر کے صرف اور صرف وصال محبوب اور رضائے محبوب کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ دین کی ساری عمارتیں بھی عشق کے انھیں لافانی جذبات پر قائم ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی دراصل ایمان ہے۔
قرآن کی متعدد آیات اور بے شمار احادیث مبارکہ نہ صرف محبت خدا و رسول پر دلالت کرتی ہیں بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہیںکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے بغیر ہمارا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَ اَبْنآَئُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَا رَةُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْ حَتّٰی یا تِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ۔ وَاَللَّہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ (التوبہ 24) (ائے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں ، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ گھر جو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔) نیز فرمایا: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرُ رَّحِیْمُ۔ (ال عمران 31) (کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخشے گا۔ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا۔ (النسآء 80) (جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اورجو منھ موڑ گیا ، تو بہرحال ہم نے تمھیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔)
Ishq e Rasool S.A.W
اسی طرح متعدد حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے۔ بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے: ”لا یُوء من احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین۔” (تم میں سے کوئی ایمان میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اس کے دل میں اس کے باپ،بیٹے اورتمام انسانوں سے بڑھ کر راسخ نہ ہو جائے۔) قرآن کریم کی ان آیات اور احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ محبت رسول صلی علیہ وسلم ایمان کا لازمی جز ہے۔ روایتوں میں مذکور ہے کہ اسلام کی سیاسی طاقت بڑھ جانے کے بعد مدینہ کے بہت سے اعراب(دیہاتی) دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور اسلامی احکامات کی پابندی بھی کرنے لگے لیکن ان کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اب تک راسخ نہیں ہو سکی تھی، انھوں نے بعض مواقع پر اپنے ایمان لانے کا اس طرح دعویٰ کیا گویا انھوں نے ایمان لاکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی احسان کر دیا ہو چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بذریعۂ وحی ان کے ایمان کی حقیقت واضح کر دی : ”اور یہ اعرابی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو۔ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کر لی، ابھی ایمان تمہارے دلوں کے اندر نہیں داخل نہیں ہوا ہے۔”(سورة الحجرات)
اس آیت مبارکہ نے واضح کر دیا کہ محض اطاعت یعنی ظاہر رسوم و قیود ہی دائرۂ ایمان میں آنے کے لیے کافی نہیں بلکہ ایمان کا تعلق براہِ راست قلب و نظر سے ہے اور ایمان کی حقیقی لذت تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ہمارے دلوں میں جذبۂ عشق راسخ نہ ہو جائے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اطاعت سے محبت نہیں ہوتی بلکہ محبت اطاعت و اتباع پر مجبور کرتی ہے۔ محبوب کی محبت میں محب سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہو جاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب محب جان دے کر بھی یہ تصور کرتا ہے کہ اس نے حق بندگی ادا نہیں کیا۔یہی وہ مقام ہے جہاں محبت آزمائی جاتی ہے کاش خوباں ہمہ از عاشق خود جاں طلبند تابہر بولہوسے عاشقی آساں نہ شود
Eid Milad Un Nabi
صحابہ کرام کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اسی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی باطل طاقتیں بھی انھیں سرنگوں نہ کر سکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت نے ان کے دلوں میں ایثار، وفا، خلوص، خاکساری،خلق خدا سے محبت جیسے عظیم جوہر پیدا کر دئیے تھے۔آج ہم محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دم بھرتے ہیں لیکن محبت کے تقاضوں کو ہم نے فراموش کر دیا۔جس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں محبت و اخوت اور بھائی چارگی کا درس دیا اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو ہم نے صرف اپنی تحریر و تقریر کی زینت بنا کر چھوڑ دیا۔جس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں متحد کرنے کے لیے صعوبتیں اٹھائیں اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم نے صرف زبانی محبت کے ہی دعوے کیے، ہم نے ایک جگہ رہتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ عمارتیں تعمیر کر لیں۔ ہم متحد ہو کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیغام کو ساری دنیا میں کیا پہنچاتے ہم نے آپس میں ہی اختلاف و انتشار پیدا کر لیے۔
اللہ کا شکر و احسان ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں۔ ہمارے دلوں میں ان کی محبت بھی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ محبت کی اس جذبے کو مزید بڑھایا جائے یہاں تک کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام محبتوں پر غالب آ جائے۔ اگر ہمارے دلوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت پیدا ہو گئی تو پھر اللہ کی نظر عنایت و التفات بھی ہم پر ہوگی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہماری کوتاہیاں بھی در گزر کر دی جائیں گی اور ہمارا شمار بھی اللہ کے مقرب بندوں میں ہو گا (انشاء اللہ) اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق