عشق جب زمزمہ پیدا ہو گا
Posted on May 29, 2012 By Adeel Webmaster ناصر کاظمی
Nasir Kazmi
عشق جب زمزمہ پیدا ہو گا
حسن خود محو تماشا ہو گا
سن کے آوازہ زنجیر صبا
قفس غنچہ کا دروا ہو گا
جرس شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپر عنقا ہو گا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کون دیکھے گا طلوع خورشید
ذرہ جب دیدئہ بینا ہو گا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر برسا ہوگا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دل حیرت زدہ تنہا ہو گا
پھر کسی صبح طرب کا جادو
پردئہ سب سے ہویدا ہو گا
گل زمینوں کے خنک رمنوں میں
جشن رامش گری برپا ہو گا
پھر سر شاخ شعاع خورشید
نکہت گل کا بسیرا ہو گا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شدر پھول میں لرزا ہو گا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
دیکھ کر آئینہ آب رواں
پتا پتا لب گویا ہو گا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اترا ہو گا
ناصر کاظمی