عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
Posted on May 7, 2012 By Adeel Webmaster شکیب جلالی
bewafa
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں
سر پٹک کر درِِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ، نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہدوپیماں وفا، پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر وسیم کی جھنکار یہاں
ننگ و ناموس کے بکتے ہوئے انمول رتن
لب و رخسار کے سجتے ہوئے بازار یہاں
سرخئی دامنِ گُل کس کو میسر آئی؟
اپنے ہی خوں میں نہائے لب و رُخسار یہاں
کشتی زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں
موج درموج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں
ہمسفر چھوٹ گئے، رہنما روٹھ گئے
یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں
تیرگی ٹوٹ پری، زور سے بادل گرجا
بجھ گئی سہم کے قندیلِ رُخ یار یہاں
کتنے طوفان اُٹھے، کتنے ستارے ٹوٹے
پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں
میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئیگی بہار
میں اگر مر بھی گیا، وادئی پُرخار یہاں
شکیب جلالی