پیارے قارئین علم ایک روشنی ہے علم ایک طاقت ہے حضور سرور کائنات، فخر موجودات، امام الا نبیائ، معیلم انسانیت کی حدیث مبارک ہے کہ علم میرا ہتھیار ہے علم ایک ایسا جوہر ہے جو انسان میں خود شنا سی اور خداشنا سی سے مقام انسانیت کے خواص پیدا کرتا ہے اس عظیم صفت کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے، راقم الحروف کو ایک تعلیمی ادارہ میں منعقدہ تقریب میں شمولیت کا شرف ملا جس میں طلبہ نے ہم نصابی سرگرمیاں پیش کیںاور شرکائے محفل کو ورطر حیرت میں ڈال دیا ،یہ ہرگز کوئی ڈرامہ یا کھیل نہیں تھا بلکہ اساتذہ کرام کی محنت ،کاوش اور ہمہ پہلوں تربیت کا اثر تھا کہ ایک جذباتی دنیا محسوس ہو رہی تھی اس وقت ایک کلمہ یاد آگیا کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔
بہر حال قابل ذکر پہلو یہ تھا کہ طلبا نے شاعر مشرق، مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی نظم سنائی۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صور ت ہو خدایا میری دور دنیا کا میرے دم سے اندھیر ا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہومیرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب ہومیرا کام غربیوں کی حمایت کرنا درمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا میرے اللہ ہر برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو
تو محفل پرعجب منظر تاری تھا، میرے لئے یہ عنوان بن گیا اور اب اسی پر بات کر ناضروری خیال کرتاہوں، معاشرتی زندگی میں اگر تبدیلی رونما ہو سکتی ہے تو وہ علم ہی کی طاقت ہے، مذہبی، سیاسی، اقتصادی غرضیاکہ ایک عالمگیر تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ،تاریخ کے اوراق کی گرادنی کریں تو زمانہ جہالت میں تبدیلی علم کی روشنی سے نمودار ہوئی تھی، غار حرا کی تاریکیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نسخہ کیمیا لے کر مخلوق خد اکے پا س لے کر آئے صفہ یونیورسٹی سے علم کا چشمہ پھوٹا جس سے پیاسے دلی سیراب ہو ئے علم و حکمت کے موتی آبدار ہوئے مردہ دل زندہ ہوئے سیاہ راتیںاجالوں میں تبدیل ہوگئیں ،اس لب لباب ہی ہے کہ عرب کے روشن خیمہ آقانے علم کے فروغ سے انقلاب لایا عصہ حاضری کے تقاضوں کے مطابق قومی اور ملی سطح پر شعور کی بیداری جزولا نیفک ہے خطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نا گہانی ،بندہ صحرائی ہو کہ مر د کو ہستانی۔
ہمارے مشاعر، چوہدری رحمت علی ، علامہ اقبال، قائداعظم مولانا ظفر علی خان، صحافی الیاس چوہدری، جیسی ہستیاں تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں ہمیں بھی قومی رہنمائوں کی تقلید کرتے ہوئے نئی نسل کی ہمہ گیر و تربیت کا اہتما کرنا ہے، یہ مقدس فرض ہمارے تعلیمی ادارے بہتر انداز سے سر انجام دے سکتے ہیں اس ضمن میں حکومت وقت کی طرف سے مفت تعلیم کا اہتما مفت کتب کی فراہمی ایک احسن قدم ہے اس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک چالیس فیصد لوگ غربت کی شرح سے نیچے کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بس کرنے پر مجبور ہیں۔
ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس سر چھپانے کیلئے اپنا مکان تک نہیں ،غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے متعدد لوگ نان شبینہ سے محروم رہ کر خودکشی کرنے پر بھی مجبور ہیں ، جرائم اور برائیوں کی وجہ سے کئی افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں قتل اور ڈکیتی جیسی مذموم کارروائیاں جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہیں ایسے میں فعلت تعلیم کی سہولت سے معاشرے کو استفادہ کرنا چاہیے تاکہ غریب لوگوں کے معصوم بچوں کی زبانوں پر بھی علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب کی آواز بلند ہو ۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ اگر روشن راہیں متعین ہو سکتی ہیں تو علم سے ہی کیوں کہ و ہ علم روشنی اور جہالت اندھیر ا ہے اس پیارے وطن کی جفرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع تعلیم اور علم کی طاقت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق نئی نسل کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا بھی ہے ۔ایک طرف اپنے وجود کی بقا کا سوال اور دوسری طرف نظریاتی سوچ اور فکر کا فروغ ان حالات میں باہمی محبت اور اخوت کا اہتمام ناگزیر ہے، اخلاص، پیار، محبت، دور تحمل جیسی خوبیاں اساتذہ کرام ہی تعلیمی اداروں میں فروغ پا سکتی ہیں، اچھے انسان اور اچھے شہری پیدا کئے جاسکتے ہیں اس پر ایک شاعر نے بڑے پیارے انداز سے بیان کیا ہے۔
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے چال بدلے گا پرندے بھی وہی ہوںگے شکاری جال بدلے گا بدلنے ہیں تو دن بدلو بدلتے ہوتو ہند سے ہی مہینے پھر وہی ہوں گے، بیچار ہ سال بدلے گا
میری دعا ہے خدا میرے وطن کو سلامت رکھے میر وطن کی مٹی سے محبت کی خوشبو آتی رہے، صحن چمن میںمسرتوں کے پھول کھلتے رہیں قو م کے بچوں کی زباں پر علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب کے نغمات گونجتے رہیں۔