عمران خان ایک گیند سے کتنی وکٹیں گرا سکتا ہے

mumtaz a bhatti

mumtaz a bhatti

آج سے تقریبا 15سال قبل تحریک انصاف میں چند لوگ شامل تھے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو امیدوار بھی مشکل سے مل رہے تھے۔ہرطرف سے تنقید ہو رہی تھی تنقید کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔جب عمران خان یہ کہتے کہ انکی پارٹی ایک دن بہت بڑی طاقت بن کر ابھرے گی تو مخالف سیاستدان طنزکیا کرتے تھے مگر عمران خان نے جدوجہد جاری رکھی ۔لاہور کے جلسہ نے تو تمام سیاستدانوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی اور پاکستان تحریک ا نصاف نے آج واقعی سونامی کا روپ دھار لیا ہے۔اب تمام سیاستدان خوفزدہ ہیںاور طرح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔عمران خان نے پریس کانفرنس کی کرپشن،نواز،زرداری گٹھ جوڑکے بارے میں تفصیل بتائی اور مولانا فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لیا۔عمران خان نے کہا کہزرداری کی سب سے زیادہ خدمت نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے کی ،کرپشن کی اس ٹرائکا کا مقابلہ کرینگے۔ پہلے دو وکٹیں لینی تھیں اب تین وکٹیں گراوں گا۔ نواز شریف جس تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ 80اور 90کی دہائی میں لا چکے ہیں۔ وہ باریاں لینے اور شکل بدلنے کو تبدیلی سمجھتے ہیں۔فضل الرحمن نے اسلام کا نام بیچ کر مال بنایااسلام کے رکھوالے کو بتانا چاہتا ہوںکہ اس ملک کو جتنا نقصان مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں پہنچا اتنا یہودی اس ملک پر قبضہ کر لیں تب بھی نہیں ہو سکتا ۔ مولانا وکی لیکس کو جواب دیں جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مجھے وزیر اعظم بنائیں میں امریکہ کی سب سے بہتر خدمت کرونگا۔بیسویں ترامیم کے نام پر ہونے والے مذاکرات، باہمی مفادات کاکھیل ہیں ۔ مذاکرات میں مولانا فضل الرحمن کی موجودگی حکمرانوں کی بے قاعدگی اور کرپشن کو قانونی حیثیت دینے کی گہری سازش ہے ۔ امریکی جنگ کی خاطر ہم نے اپنا تعلیم اور صحت کا بجٹ کم کیا مغربی طاقتوں نے اپنے مفادات کی خاطر این آر او کروایا۔

این آر او سے مستفید ہونے والے تمام لوگ ملکی تباہی کے ذمہ دار اور قومی مجرم ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن ملکی معیشت و سیاست تباہ کرنے کا ڈرامہ لگا رکھا ہے ۔ عوام مہنگائی اور کرپشن سے تنگ ہیں اور حکمرانوں محلاتی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ گیس، بجلی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں لیکن حکومت مستقبل کی نسلوں کو غیر ملکی قرضوں تلے دبا دیا ہے۔”گو زرداری گو ” کی تحریک چلانے والوں نے پنجاب اور مرکز سے استعفے کیوں نہیںدیے ؟میمو گیٹ پر کالاکوٹ پہن کر عدالت جانے والے پر جب بین الاقوامی دبائو پڑا تو وہ دم دبا کر پیچھے ہٹ گئے کیونکہ ان کی دولت جن ممالک میں پڑی ہے وہ ان کادبائو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ”ن” لیگ گذشتہ 4سالوں سے اندرونِ خانہ حکومت سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہے اور مسلم لیگ (ن) نے فرینڈلی اپوزیشن کر کے حکومت کو اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں پوری مدد فراہم کی ہے ۔ میمو گیٹ کے واقعہ میں ایک دفعہ پھر سچائی کا سیاسی مفادات کے ہاتھوں خون ہوا ہے، اپوزیشن کی طرف سے حکومت گرانے کی دھمکیوں کے باوجود موجودہ حکومت کو تین سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے دے گئی اور اب بیسویں ترامیم پردوبارہ ایک ناپاک سیاسی معائدہ ہونے جا رہا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کا ہر قدم خود غرضانہ مقاصد کے حصول کیلئے وقف ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات میں مولانا فضل الرحمن کی شمولیت ہی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے ۔عمران خان نے ملکی معیشت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اعدادو شمار دیئے اور بتایا کہ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت پر 19500ارب روپے کا بوجھ ڈالا ہے ۔ کرپشن ، ٹیکس چوری ، طاقتور طبقات کو دی گی مراعات ، انتہا درجے کی فضول خرچیوں اور سرکاری اداروں کی مایوس کن کارکردگی کے باعث ملکی خزانے کو 3100ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماہانہ اخراجات جو مشرف دور میں 21ارب روپے ماہانہ تھے بڑھ کر اب 96ارب روپے ماہانہ ہو چکے ہیں ۔ 9/11کے بعد کے 6سالوں میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے اخراجات 28ارب ڈالر تھے جبکہ یکم اپریل 2008سے لے کر 31جنوری 2012تک دہشتگردی کی جنگ میں 78ارب ڈالر جھونک دیے گئے ہیں۔ اس میں پچاس ارب ڈالر کا اضافہ اس لیے ہوا کیونکہ یہ این آر او زدہ حکومت ہے ۔ عمران خان کی پریس کانفرنس بھی حقائق پر مبنی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایجنسیاں اتنی تعداد میں لوگوںکو جلسوں میں نہیں لا سکتیں۔پاکستانی عوام کی حالت د ن بدن خراب ہوتی گئی ہر آنے والی حکو مت وعدوں پر وعدے کرتی رہی مگر عوام کی حالت نہ بدلی الٹا قومی ادارے تباہ ہوگئے۔اگر خوشحالی آئی تو صرف سیاستدانوں کی حد تک۔اگر عوام میں مایوسی نہ پھیلتی تو اور کیا ہوتا۔اسوقت عوام کی امید عمران خان ہیں۔لوگ جوق در جوق اس لیئے عمران خان کے ساتھ آ رہے ہیں کیونکہ باقی تو سب آزمائے ہوئے ہیںاب عمران خان کو بھی دیکھ لیں۔اب عمران چاہیں تو ایک گیند سے دو یاتین نہیں جتنی چاہیں وکٹیں گرا سکتے ہیں۔اگر عمران خان بھی تبدیلی نہ لا سکے اور پارٹی منشور پر عمل نہ کر سکے تو پھر انکی وکٹ کا کیا بنے گا ۔ان سمیت سب کو معلوم ہے۔

تحریر : ممتاز احمد بھٹی