پاک بھارت فریڈشپ کے بہی خواہ لاکھوں پاکستانیوں کے ازہان میں یہ خدشات حقیقت کے روپ میں راسخ ہوتے جا رہے ہیں کہ بھارتی حکمران پاکستانی وجود کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دوستی کو پروان چڑھانے کے ناطے انڈو پاک کرکٹ سیریز کے کامیاب انعقاد کا اعزااز رکھنے والا پڑوسی ملک پلک جھپکتے LOC پر توپوں کے منہ کھول دے گا۔
طرفین کے مابین کشیدگی کا اغاز اس وقت ہوا جب انڈین ترجمان نے الزام لگایا کہ پاکستان نے انکے 20فوجیوں کو اغوا کرکے قتل کردیا ۔پاکستان نے اس دشنام طرازی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے افر دی کہ الزام کی تفتیش unoسے کروائی جائے ہم uno کا فیصلہ صدق دل سے قبول کریں گے۔ افواج پاکستان کے ڈی جی ملٹری اپریشن نے اپنے بھارتی ہم منصب کو فون کرکے نہ صرف اپنی صفائی دی بلکہ اپنے تعاون کی پیشکش کی۔
اس پر طرہ یہ کہ کہ انڈو پاک فلیگ میٹنگ میں پاکستان نے الزامات کی تردید کی مگر میں نہ مانوں کی مصداق بھارت نے پاکستان کی ایک نہ سنی اور بھارتی عسکری قیادت نے ایک طرفLOC کو بارود لائن بنادیا تو دوسری طرف پاکستان کومزہ چکھانے کی دھمکیوں کا بازار گرم کردیا۔بھارتی فضائیہ کے پردھان منتری نے پاکستان کو سخت جواب دینے کی ہاہاکار مچائی۔ انڈین ارمی چیف نے چنگیزی زبان استعمال کی کہ بھارت اپنی مرضی سے پاکستان کے کسی بھی محاز پر حملہ کرسکتا ہے۔
انڈین کانگریسی حکمران گروہ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہا۔من موہن سنگھ نے جگالی کی کہ اب پاکستان کے ساتھ معمول والے تعلقات نہیں رہے۔ کنٹرول لائن شائد روئے ارض کی واحد لکیر ہے جہاں پچھلی چھ دہائیوں سے اسلحے کی گھن گرج جاری ہے۔پاکستانی وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے2003 میں قیام امن کی خاطر وسیع القلبی کی تاریخ رقم کی اور یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف بھارت نے بھی تقلید کی۔یوں توپوں کی تڑتڑاہٹ ختم ہوگئی مگر طویل عرصہ بعد 8 جنوری کو LOCایک بار پھر دھماکوں سے گونج اٹھی جھڑپوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب خدشہ تو یہ ہے کہ کہیں LOC پر فائرنگ کشیدگی کی سلگنے والی چنگاریاں خطے میں امن کے خرمن کو خاکستر نہ کردے۔بھارتی میڈیا پاکستانی فورسز کے خلاف اگ اگل رہا ہے مگر پاکستان کی سول سوسائٹی اور میڈیا نے بے حسی کی چادر تان رکھی ہے۔
Pakistan Aramy
دکھ تو یہ ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔میڈیا افواج پاکستان کے ساتھ برسرپیکار کالعدم تحریک طالبان سی ائی اے را موساد کے دہشت گردوں انتہاپسندوں اور خود کش بمباروںکے بیانات کو تو تزک و احتشام کے ساتھ شائع کرتا ہے۔ تاہم10 سالہ جنگ میں 9000جوانوں کی قربانی دینے والی سرفروش فوج کو زیادہ تر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے شہزادے اینکرصاحبان اور میکاولے کے پرنسوں کو سیاسی ٹک ٹک کی بجائے قومی سلامتی اور انڈو پاک کلیش سے متعلق عنوانات ارشادات اور بیانات کی جانب متوجہ ہونا چاہیے تاکہ کسی جنگی صورتحال سے نپٹنے کی خاطر عوام کو ایک قوم کے سانچے میں ڈھالہ جاسکے۔
سابق برصغیر پاک و ہند کے امن پسند کروڑوں انسانوں کے دلوں میں امن بھائی چارے مساوات کی لو ٹمٹمارہی ہے کہloc کی خونی پریکٹس بند ہوجائے مگر سچ تو یہ ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت مہیا کئے بغیر ار پار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ LOC ا زیت کی لکیر بن چکی ہے۔انڈین اخبار ASIAN AGE میں ازیت کی لکیر کے عنوان سے ایک فیچر شائع ہوا ہے جس میں محولہ بالہ متن کو سمجھنے کے لئے کافی مواد موجود ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پہنچ چکی ہیں۔ لائن اف کنٹرول کا مطلب پاکستان اور ہندوستان کے نذدیک جو بھی ہو مگر دونوں اطراف کے کشمیری اسے دلوں سے گزرنے والی لائن سمجھتے ہیں۔ ایک ایسی لائن جو چکی کے دوپاٹوں کی مانند ہے۔
1972 کے شملہ معاہدے سے پہلے اسکانام جنگ بندی لائن تھا بعد میں ایل او سی کا نام دیا گیا۔ اندرا گاندھی اسے انٹرنیشنل باڈر کا نام دینے پر تلی ہوئی تھی ۔بھٹو پر اندرا اور دیگر بھارتی نیتاوں نے خوب پریشر ڈالہ۔ گیم پلان یہ تھا کہ کشمیر کاتنازعہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے مگر بھٹو ایل او سی کے نام پر ڈٹ گئے1948 میں بھارت ہی مسئلہ کشمیر کو یو این او میں لے گیا مگر شملہ ایگری منٹ میں یہ دو طرفہ تنازہ بن گیا۔
کشمیریوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ لائن اف کنٹرول مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ خود بڑا مسئلہ ہے۔ کشمیر میں دو دہائیوں تک چلنے والی مسلح تحریک کے بعد پر امن جدوجہد کا اغاز ہوا۔شملہ کے بعد برسوں تک دونوں اطراف سے گولیاں چلتی رہیں کئی معصوم لوگ جانیں گنوا بیٹھے۔ تحریک ازادی کشمیر کا مسلح دور جاں گسل تھا۔ لاکھوں کشمیری اور پاکستانی مجاہدین بھارتی افواج کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔2003 کی جنگ بندی میں اہل کشمیر نے سکھ کا سانس لیا مگر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی۔قانون کی خلاف ورزیوں کے واقعات منظر عام پر ائے۔انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔
Pak India Trate
مسلح جدوجہد کرنے والی سیاسی و عسکری تنظیموں نے بھارتی حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کردئیے۔لبریشن فرنٹ کے رہنما یسین ملک نے حال ہی میں ماتم کیا ہے کہ بھارتی حکومت نے اج تک وعدے پورے نہیں کئے۔اس عرصہ میں پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکراتی عمل جاری رہا۔پاکستان نے تجارتی مقاصد کی خاطر بھارت کو موسٹ فیورٹ ملک کا درجہ دیا۔ پاکستان نے اعتماد سازی کے ضمن میں بھارتی جاسوسوں تک کی سزائے موت معاف کی مگر اجمل قصاب کو پھانسی کا پھندا ملا۔
پاکستان کی جانب سے دکھائے جانیوالے جذبہ خیر سگالی اور دیگر لچکدار اقدامات اور امن کی اشا کا کوئی فائدہ نہیں نکلا کیونکہ اٹھ جنوری کو LOC نے خون ابلنا شروع کردیا۔ کشیدگی کب ختم ہوگی؟ کیا مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔
کیا انڈوپاک میں اسلحے کی دوڑ کبھی منطقی انجام کو پہنچ سکے گی؟ کیا کنٹرول لائن امن کا گہوارہ بن سکتی ہے؟ اسکا فیصلہ تو انے والا وقت کریگا تاہم یہ بات طئے ہے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں امن کی خواہش دیوانے کی بڑ ہوگی۔بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ازادی کی اگ کو وقتی طور پر بجھایا تو جاسکتا ہے مگر راکھ کے اندر سلگنے والی چنگاریوں کو بجھانا ناممکن ہوتا ہے۔بحرف اخر کنٹرول لائن کشمیریوں کے خمیر کو ہچکولے دے رہی ہے اور انکا گلا دبانے کا باعث بن رہی ہے۔