واہ ری سادہ لوح پاکستانی عوام! تو بھی کتنی بھولی ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے ہرایک پر اعتبار کر لیتی ہے خواہ بعد میں اس دو وقت کی روٹی کے بدلے اس کو کئی گنا روٹیوں کا حساب دینا پڑے۔ مشکل حالات میں فوراً دوسرے پر اعتبار کرنا غریب انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کبھی کسی امیر نے غریب انسان کی باتوں پر یقین کرکے اس کی حمایت نہیں کی کیونکہ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ غریب آدمی کے دل میں کوئی چور نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی مفاد چھپاہوتا ہے۔ وہ سچا اور کھرا انسان ہوتا ہے مگر امیر لوگ غریب کو ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ سیاستدان سے لیکر زمیندار تک، بیوروکریسی سے لیکر کلرک تک سب اپنے سے چھوٹے کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔
غربت بہت بڑا جرم ہے اسی لیے غریب آدمی کے لیے کوئی معافی بھی نہیں جبکہ امرا ء و شرفاء بڑے بڑے گنا ہ کرکے معافی بھی نہیں مانگتے اور ان کا کیا دھرا سب کچھ اپنے آپ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے مگر پھر بھی لوگوں کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے کچھ کارنامے یاد دلانا ضروری ہے ۔پچھلے دنوں یونس حبیب نے ایک انکشاف کیا کہ 1988میں بننے والے ایک سیاسی اتحادکے لیے بنک سے کروڑوں روپے نکلواکر بانٹے گئے۔جس کو بعد میں عدالت نے تسلیم کرکے اپنا فیصلہ سنا بھی دیا۔ اس اتحاد کے لیے بہت سے سیاستدانوں کے نام سامنے آئے جنہوں نے رقم وصول کی تھی مگر حیرت تواس بات کی ہے کہ عدالت عظمٰی نے تو مان لیا مگر سیاستدان یہ پیسے لینے والی بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ چلو یہ تو عدالت کا کام ہے اس کا کیا حل نکالنا ہے ؟مگر افسو س تو اس بات کا ہے کہ اگر انہوں نے وہ پیسہ نہیںلیا توپھر وہ پیسہ کدھر گیا؟ یہ پیسہ جو ان لوگوں نے بربادکیا وہ کسی اور کا نہیں عوام کا تھا۔بحرحال جس کسی نے بھی یہ رقوم فراہم کی کیا اس نے اپنی جیب سے دی تھی ؟ ہرگز نہیںبلکہ بنک سے لیکر دی تھی اور بنک میں زیادہ پیسہ عوام کا ہوتا ہے بڑے بڑے امیر لوگ تو پاکستانی بنکو ں میںاپنا پیسہ رکھنا بھی توہین سمجھتے ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ بہت قریب کا دور جو مشرف کا دور تھا ۔ اس دور میں جو لال مسجد آپریشن میں کیا ہواتھا؟ کون تھا جس نے ان بے گناہ شہید ہونے والے لوگوں کے حق کے لیے آواز بلند کی؟ کوئی نہیں بولا اسوقت جب ان کو شہید کیا گیا اور جب یہ آپریشن ہوگیا تو اس کے بعد عوام کو جھوٹا دلاسہ دینے کے لیے میڈیا پر بیانات شروع کر دیے۔ یہی ”سیاستدان” جواس وقت مشرف کے خاص لوگوں میں شامل تھے آج وہی سب کچھ مشرف پر ڈال رہے ہیں ۔ ٹی وی ٹاک شو میں بڑے زور شور سے باتیں کرتے ہیں مگراس وقت ان کی زبان کہاں گئی تھی؟ کیوںان لوگوں نے مشرف کے اقتدار کوٹھوکر نہیں ماری؟کیوں بغاوت کا علم بلند نہیں کیا؟ اس لیے کہ وہ کسی امیر کے نہیں بلکہ غریبوںکے بچے تھے جومدرسے میں تعلیم حاصل کررہے تھے” سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی”شایدیہ فقرہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جووقت نکلنے کے بعدپوائنٹ سکورنگ کرنے کے لیے بولنا شروع کرتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹو تو اقتدار کے دوران سب لوگ مومن ہوتے ہیںاور سب اچھا کی رٹ لگاتے ہیں اور جیسے ہی اقتدار سے الگ ہوئے یا اُس سیاسی پارٹی کو چھوڑا تو پھر ان کو اُن میں ایک سو ایک عیب نظر آتے ہیں۔
اصل وجہ عوام کا بھولا پن ہے جس کو یہ آسانی سے اپنے جال میں پھانس لیتے ہیں اور اس کا فائدہ ایسے ہی لوگ اٹھاتے ہیں ۔اگر عوام ان کے مظالم یا ہیر پھیر کو یاد رکھیں تو کبھی بھی یہ لوگ ایسی حرکت نہ کریں اور اگر کریں گے بھی تو کبھی ان کے در پر دوبارہ بیوقوف بنانے نہیں آئیں گے کیونکہ عقلمند شخص صرف ایک بار گڑھے میںگرتا ہے۔ان کو معلوم ہے کہ چند روپوں کی خاطر غریب لوگ اپنے پچھلے وقت کو بھول جاتے ہیں ۔ چارسال تک یہ لوگ علاقے میں کوئی کام نہیں کرتے مگر جیسے ہی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے تو پھر اپنے حلقوں میں چند نالیاں، گلیوں کی سولنگ، واٹر سپلائی اور کوئی اور چھوٹے موٹے کام کرا کر الیکشن مہم کے دوران ان کاموں کے گیت گاتے نظر آئیں گے کہ ”فلا ں شہر میں ، گاؤں میں ہم نے اتنے کروڑ کا ترقیاتی کام کرایاہے ”۔ اپنے خاص لوگوں کو اکثرملازمت دلاتے ہیں اور غریبوںکے ایک یا دونوجوانوں کو ملازمت دلا کر ساری الیکشن مہم میں ان کا چرچا کریں گے جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیااورشاید ان ملازمتوں پرکسی غریب کا حق نہیںہے۔
Election Pakistan 2012
اب پھر الیکشن کی آمدا مد ہے اور ایسے سیاستدان آپ کو ایک بار پھر اپنے اپنے جال میں قابو کرنے کے لیے آپ کے گھر کی دہلیز پر ہونگے۔ آپ کو سبز باغ دکھائیں گے۔سپنوں کے محل سجائیں گے اور جھوٹے وعدے بھی کریں گے مگر اب وقت وہ نہیں رہا۔ عوام کو اپنے اندر حوصلہ پیدا کرکے ان کو اصل آئینہ دکھا نا ہوگا۔ اپنے اندرکے خوف کو نکالنا ہوگا۔ اگر عوام چاہتی ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور پاکستان میں مہنگائی کنٹرول ہو، بے روزگاری ختم ہو، دہشت گردی کا خاتمہ ہوتو پھر اس بار ہر شہر، قصبے اور گاؤں کی عوام کو ایسے مکر فریب کرنے والے لوگوں کو پہچاننا ہوگااور ان کے فریب سے بچ کر ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو واقعی تمھارا درد سمجھتے ہیں اور تمہیں ترقی پر لے جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔ وقتی مفاد سے بہتر ہوگا کہ آپ مستقبل کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ (بشکریہ سی سی پی)