وہ مرد جو پیدا ہوتے ہی عورت کے سامنے رونے لگتا ہے وہ مردعورت کو کیا حقوق دے گا ۔جسے اس دنیا میں آنے کے لیے ایک عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ مرد جسے اپنی نسل آگے چلانے کے لیے کبھی کبھی ایک سے بھی زیادہ عورتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مرد کیوں یہ بات بھول جاتا ہے کہ جس نے اسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں پالا ۔اور پھر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسے جنم دیا ۔وہ عورت ہی ہے جو اپنی تمام تر خواہشات کو زندہ دفن کرکے رات دن مرد کی بے لوث خدمت کرتی ہے جب اللہ تعالیٰ نے عورت کوپیدا کرنے سے پہلے ہی اس کی فطرت میں شرم وحیاء پیدا فرما کر عورت کو ماں ،بیٹی ،بہن اور بیوی کے رشتے میں مرد کو ایسا تحفہ دیا ہے جس کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی مردکا وجود عورت کے وجود کے بغیر باقی رہ سکتا ہے۔لیکن افسوس کہ دور قدیم سے دورجدید تک عورت مظلوم ہی رہی ۔یہ بات سچ ہے کہ عورت میں بھی کچھ خامیاں ہیں ۔کیونکہ عورت میری ماں بھی ہے میری بہن بھی ہے اور بیوی بھی ہے اس لیے عورت کی کردار کشی نہیںکروں گا اور نہ ہی عورت کی خامیاں گنوائوں گا۔ میں عورت کی ان خامیوں کا ذمہ دار بھی مرد کو ہی سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے اس لیے معاشرے میں پیدا ہونے والے اچھے یا برے کرداروں کی ذمہ داری بھی مرد پر ہی عائدہوتی ہے۔لیکن دورجدید میں سب سے بڑا لمحہ فکریہ ، یہ ہے کہ اگر کبھی کو ئی عورت اچھااور قابل فخر کارنامہ سرانجام دیتی ہے تو اس کا سہرا بھی مرد کے سر ہوتا ہے کیونکہ مرد نے اسے اس کا موقعہ فراہم کیا ابھی اس معصوم نے اپنی ماں کے وجود سے باہر کی دنیامیں چند سانسیں ہی لی تھیں۔ وہ بالکل تندرست اور توانا تھی۔ ابھی اسے مذہب ،ذات پات ،رنگ ونسل، خاندانوں اور فرقوں کی تقسیم کے بارے میں کوئی علم نہ تھا ۔ابھی تو اس نے ہنسنا بھی نہیں سیکھا تھا ابھی تو اسے بس رونا آتا تھا اور نہ ہی اسے اپنی جنس کا کچھ علم تھالیکن اس کی قسمت میں زندہ دفن ہونالکھا تھا کیونکہ وہ جس دور میں پیدا ہوئی تھی وہ دور جہالت تھاجب بیٹی کو ایک گالی سمجھا جاتا تھااور اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہ تھاایسے میں اگر اسے علم ہوتا کہ اس کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جائے گا اور علم کے ساتھ اگراسے اختیار بھی ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی جنس منتخب کرلے تو شاید وہ کبھی بھی عورت ہونا پسند نہ کرتی اسے کیاپتہ تھا کہ وہ کس زمانے میں پیدا ہو رہی ہے ۔جی قارئین یہ حالات تھے اسلام سے پہلے کے جب عربوں میں بیٹی کو زندہ ہی دفن کردیا جاتا تھا لیکن پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں عورت کو وہ مقام دیا جس کی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حقدار تھی ۔اسلام نے عورت کو نہ صرف جینے کا حق دیا بلکہ دنیا میں پہلی مرتبہ بیٹی کو وراثت کا حقدار بنا کر اسے معاشرے میں با عزت فرد ہونے کامقام عطا کیا ۔ مگر یاد رہے یہ حق صرف اسلام نے دیا اور انسانوں پر اللہ کا احسان ہے ۔عور ت مغرب میں پیدا ہو یا مشرق میںکسی بھی معاشرے نے سوائے اسلام کے عورت کو انسان ہونے کا درجہ نہیں دیا ۔ عورت کے وجود سے کائنات کا حسن باقی ہے ۔ماں بھی ہے ۔عورت بہن بھی ہے ۔عورت بیوی بھی ہے اور عورت بیٹی بھی ہے خواتین کے موضع پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ قلم اٹھاتے ہو ئے محسوس ہوتا ہے شاید اب کچھ باقی نہیں رہا۔ لیکن وینا ملک کا نیا سکینڈل سامنے آنے کے بعد جو انڈیا کے ایک رسالے میں ویناکی عریاں تصاویر کی اشاعت کے بعد منظر عام پر آیا ۔میں اپنے آپکو اس موضع پر لکھنے سے نہیں روک سکا ۔اس موضع پر مزید بات کرنے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے نزدیک مرداورعورت دونوں ہی انسان ہیں ۔ عورت خوار ہو یا مرد خوار ہو خواتین کے حقوق کی پامالی تو اسلام سے پہلے بھی ہوتی تھی لیکن جب اسلام نے عورت کے حقوق کو تسلیم کیا تو دنیا کا وہ پہلا معاشرہ وجود میں آیا جس نے عورت کو عزت اور وقاردیا جو کہ اس کا حق تھا۔ جدت پسندی اور آزاد خیالی کے اس دور میں ہم انسانیت کے اصول بول چکے ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب بھی انسانیت کی تذلیل نہیں کرتاجس معاشرے میں ماں بیٹی اور بہن کی عزت محفوظ نہ رہے وہاں ایک وینا ملک پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہاں ہرقدم پر ایسے کردار ملتے ہیں۔وینا ملک ایک عورت ہے میں اسے آج کسی بھی مذہب کی نظر سے نہیں دیکھتا صرف انسانیت کی نظرسے دیکھوں تو پھر بھی وینا بھی اسی حوا کی بیٹی ہے جو میری بھی ماں ہے۔ ایسی ہی حوا کی ایک بیٹی نے نوماہ تک مجھے اپنے وجود میں پالا ۔پھر جب میں دنیا میں آیا تو مجھے رونے کے سوا کچھ نہیں آتا تھااسی حوا کی بیٹی کو اللہ تعالیٰ نے میرے زندہ رہنے کا سامان کیا اللہ تعالیٰ نے جس جسم سے مجھے رزق عطا کیا کیوں میں اسی وجود کو تماشا بناتا ہوں ۔مجھے کیوں شرم نہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں حیا کا درس دیا ہے ہمیں اپنی نظروںکو نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیںعذاب سے ڈرایا کہ جو اپنی آنکھو ں کوحرام (بدنگاہی) سے پر کرے گا بروز قیامت اس کے آنکھو ں میںآگ کی سلائیاں ڈالی جائیں گی مگر اگر ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ ہم اس حد یث مبارکہ پر کتنا عمل کرتے ہیں فلمیں ڈرامے اور بے پردہ عورت کو دیکھنا ہمارا شعور بن چکا ہے عورت بچاری ہماری خواہش پوری نہ کرے توکیا کرے حیاء تو ہمارے مردوں کی ختم ہو چکی ہے اگر ہم سوچیں کہ ہر کام میں ہم عورت کو ہی استعمال کیوں کرتے ہیں تو یقینا ہمارے سامنے ہماری بہت ساری خامیاںآئیںگی مثلا ٹیلی ویژن کی ہر Advertisement میں عورت ہی کیوں آتی ہے ہم اپنے کاروبار کا آغاز عورت کی بے پردگی سے کرتے ہیں جب ہم عورت سے ایسی ہی توقعات رکھیں گے انکے پردے کی پاسداری نہیں کریںگے اگر عورت کوئی بے حیائی کا کام کرتی ہے سارا معاشرہ اسے تنقید کا نشانہ بناتا ہے عورت کو اس کا اسلامی طریقے سے حق دیں اگر وہ بیٹی ہے تو اس کی تعلیم کا خیال رکھیں اسے شفقت دیں اگر بیوی ہے اس کی ضروریات زندگی کو مد نظررکھیں مگر اسے اتنا آزاد نہ کریںکل کو رسوائی کا سبب نہ بنے اسلام کے ضابطہ حیات کے اندر رہ کر اپنی زندگی گزارے لیکن جب ہمارے گھر سے عورت فیشن کرکے سر سے دو پٹہ اُتار کر بازار میں شاپنگ کیلیے جاتی ہے تو اس وقت ہماری غیرت کہاں چلی جاتی ہے مگر آہ افسوس ہم تو عورت کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلتے ہیں وینا نہ سہی لیکن وینا کے جیسی ہی میری بہن بھی ہے ۔ایسی ہی ایک عورت میری بیوی بھی جو میرے بچوں کی ماں ہے جو اپنے وجود کی تھکن کو محسوس نہ کرتے ہوئے میرے آرام کا خیال کرتی سوچنے کی بات یہ کہ ایسا ہوتا کیوں ہے کہ عورت اپنے جسم کے کپڑے کم کردیتی ہے ۔عورت کو کم کپڑوں میں دیکھ کر کون خو ش ہوتا ۔ کون ہے وہ جو عورت کو شرم وحیاء اور خلاق سے گرے ہو ئے روپ میں پسند کرتا ہے ۔کیا سبب ہے جوآج عورت نے اپنے جسم کے کپڑے کم کردیئے ہیں۔ تحریر: امتیاز علی شاکر