دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب کو ماننے والے اپنے، قومی دنِ، اہم ایام اور تہوارپورے جوش و خروش سے مناتے ہیں جس سے اُن کی قومی وحدت ، اپنے نظریہ سے لگن اور اُس کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھر پور اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح کی تقریبات ایک طرح سے اُن کے ملی اور قومی جذبہ کا مظہر ہوتی ہیں۔ سورہ یونس کی آیت ٥٨ میں اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ قرآنِ حکیم جیسی عظیم نعمت جو بعثِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ممکن ہوئی، اس کے ملنے پر جشنِ مسرت منائو۔ قرآن صاحبِ قرآن سے تو الگ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تئیس سال کی زندگی میں قرآن کو عملاََ متشکل کر کے دیکھایا نیزاُم المومنین حضرت عائشہ کا ارشاد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن تھا یعنی آپ مجسمِ قرآن تھے۔ اِس لیے نزولِ قرآن پر جشنِ مسرت تو عیدالفطر کی صورت میں منایا جاتا ہے اور مجسمِ قرآن کے لیے جشن ربیع الاول میں ہوتا ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت تین میں دینِ اسلام کو نعمت کہا گیا ہے اورجب دینِ اسلام نعمت ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو نعمت ہیں جن کی وجہ سے ہمیں دین ملا ۔ بلکہ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واضع طور پر اللہ کی نعمت قرار دیا ہے جس کی تفصیل قرآن کے اِن مقامات پر دیکھی جا سکتی ہے( ٥٢، ١٩٥٨ ، ٤٨٢، ٤٩٨ ، ٢٩٥٢ اور ٦٨٢)۔ نعمت کا ذکر کرنے کے بعدیہ بھی ارشاد فرمادیا کہ نعمت ملنے پر اُس کا چرچا کرو(٩٣١١)،اور نعمت کا شکرکرنے ِ کو عبودیتِ خداوندی قرار دیا(١٦١١٤)، نعمت ملنے پر اُس کا شکر ادا کرنے کے بارے میں تو قرآنِ حکیم میں بہت زیادہ آیات ہیں۔ جب اللہ تعالٰی نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعمت قرار دیاہے بلکہ آپ نعمتِ کبرٰی ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی در حقیت انہی قرآنی تعلیمات پر عمل کرناہے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعث کو مومنین پر احسان قرار دیاہے(٣١٦٤) ۔ اب اِن تمام آیاتِ قرآنی کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کرنا درحقیت اللہ کا حکم بجا لانا ہے اور جشنِ مسرت نہ مانا اللہ تعالٰی کی حکم عدولی ہے۔ جب خود خدا اُن کی تعریف کرتا ہے( ٤٧۔٣٣٤٥) اورحضور کوخود بہت محبت سے مخاطب کرتا ہے( ٢٠١، ٣٦١، ٧٣١، ٧٤١) تو پھر بندہ مومن کیوں نہ حکمِ ربانی کو بجا لاتے ہوئے ذکرِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا انعقاد کرے۔ قرآن کی سپریم حیثیت کا تقاضا ہے کہ مذید کوئی اور دلیل طلب کیے بغیر حکمِ خداوندی پر عمل کیا جائے۔جب قرآن واضع طور پر کہہ رہا ہے کہ نعمتِ الہی کا شکر ادا کرو اور جشنِ مسرت منائو پھر کون ہے جو انکار کی جرات کرے۔ یہ محافل حضور سے اپنی محبت اور وابستگی کا اظہارہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے تم میںسے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ سے سب زیادہ محبت نہ کرے۔ جس سے محبت ہو اُس کا تو اکثر ذکر ہوتا ہے اور جس کا عملی مظاہرہ قول و فعل سے نظر آتا ہے۔
یہ دِن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ہو یا اِس دنیا سے تشریف لے جانے کا، دین کی ابتدا کا دِن ہو یا تکمیلِ دین کی خوشی میں یا پھر ہجرت کے واقعہ کی یاد میں ، اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ، اُن کی شان بیان کرکے اُن کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور اپنی زندگی کو اُن کے اُسوہ حسنہ پر چلنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ احباب پھر بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دِن منایا کرتے تھے اور کیا صحابہ اکرام بھی یہ دِن مناتے تھے۔ کئی احباب تواِسے بدعت تک قرار دیتے ہیں۔راقم نے تحریروتقریر میں کبھی بھی اختلافی امورپر بات نہیں کی لیکن اس قدر اہم موضوع ہونے کی وجہ سے قلم اُٹھانا بھی ضروری ہے۔ جہاں تک صحابہ اکرام کا میلاد منانے کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ وہ اِس انداز میں نہ مناتے ہوں جس طرح آج منایا جاتا ہے۔ لیکن بہت سی روایات ایسی موجود ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ولادت کا تذکرہ کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ولادت کے دِن یعنی پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے یہ بھی ایک طرح سے منانا ہی ہے۔ حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن زہیر، چاروں خلفاء راشدین، حضرت فاطمہ، حضرت عائشہ اور کم از کم ٣٤صحابہ اکرام کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعتیں بھی تو اِسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اب تو لوگ سال میں ایک دفعہ ایسی تقریب منعقد کرتے ہیں جبکہ صحابہ اکرام تو ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔ جانثارانِ مصطفٰے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے دیکھ کر درودوسلام کے نذرانے پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان نثار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی محافل کے طریقہ کار اور انداز کو ہر کوئی اپنے دینی فہم اور محبت کی روشنی میں ترتیب دے سکتا ہے۔ تقریبات کو منانے کے لیے ضروری نہیں کہ ہر کوئی ایک سا طریقہ اپنائے۔ اب بھی مختلف ممالک میں میں مختلف انداز میںیہ دِن منایا جاتا ہے اور تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ قرآن کی روشنی میں رسالت کا مقام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قرآنی آیات کا مفہوم پیش کرنے کی محافل سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کے بارے کچھ بھی کہنے سے پہلے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے۔ قرآن نے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں اور اولین مخاطب صحابہ اکرام کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے مخاطب نہ کرو جیسے ایک دوسرے کو کرتے ہو(٢٤٦٣)اوراپنی آواز کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آوازپر بلند کرو ، یہ نہ ہو کہ تمھارے تمام اعمال ضائع ہو جائیں اور تمھیں شعور بھی نہ ہو(٤٩٢) لہذا بارگاہ رسالت کے بارے بات کرتے ہوئے ازحد احتیاط کی ضرورت ہے۔ جہاں تک میلاد کی محافل کا تعلق ہے تو مجھے تویہ کہنا ہے کہ ہم نے اِن محافل کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود کردیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں(٢١١٠٨) جن میں غیر مسلمان بھی شامل ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل میں غیر مسلمانوں کو کیوں شریک نہیں کیا جاتا۔ ہمیں پوری دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری انسانیت کے رحمت تھے اور سب سے بڑے سوشل ریفارمر تھے جن کی تعلیمات کا ثمر آج کی تمام انسانیت لے رہی ہے۔ دنیا بھر میں مسلم ممالک کے سفارت خانوں اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں اِس دِن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کرکے دنیا کو انسانی حقوق کے بارے میں رحمتِ عالم کی تعلیمات خصوصاََ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبہ کو پیش کرنا چاہیے جو کہ حقوقِ انسانی کا عالمی چارٹرہے ۔ وہاں سب کو بتایا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں، عورتوں، بچوں، زیر دستوں، جنگی قیدیوں اور جانوروں کے حقوق کا جوچارٹردیا تھا اُسی سے روشنی لیکراقوامِ متحدہ نے اپنا دستور بنایا ہے۔ اِس سے دنیا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہی ہوگی۔ مقامی تقریبات میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دعوت دینی چاہیے۔
اسلام کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام دین ہے مذہب نہیں جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے اور ہماری رہنمائی کرتا ہے۔اِس فہرت میں مذہبی اور دنیاوی امور دونوں کو شامل کیا جاتا ہے۔اب کچھ حلقے یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے جو جہنم کا باعث ہوگی۔ دوسری جانب یہ روایت بھی بتائی جاتی ہے کہ جو بھی کوئی نیا اچھا طریقہ وضع کرے گا تو اُس کو اُس کا اجر ملتا رہے گا۔دراصل جہاں تک دین کے بنیادی عقائد اور ارکانِ اسلام کا تعلق ہے ، اِن میں میں تو کوئی مذید اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔یہی بدعت کا اصل مفہوم ہے لیکن ہر نئی چیز کو بدعت اور گمراہی قرار دے کر انسانی ترقی کو روکنا قرآنی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ قرآن حکیم نے نصاریٰ کی جانب سے رہبانیت اختیار کرنے کو بدعت کہا ہے(٥٧٢٧)۔ قرآن تو بار بار کائنات کو مسخرکرنے، غوروفکر کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس بارے میں قرآن کی ٧٣٠ آیات ہیں جو قرآن کا بارہ فی صد ہے جبکہ جنہیں عموماََ عبادات کہا جاتا ہے اُن کے بارے میں دو فی صدسے بھی کم آیات ہیں۔ اب کائنات پر غوروفکر کے نتیجہ میں نئی نئی ایجادات تو لازمی وجود میں آئیں گی۔یہ بدعت نہیں بلکہ جدت ہے اور اگر یہ نہ ہوتی تو آج کا انسان بھی وہیں کھڑا ہوتا جہاں ہمارے آباء تھے۔ دنیاوی چیزوں سے قطع نظر بہت سی مذہبی سرگرمیاں جو تقریباََ تمام مسالک اور فرقوں میں روا رکھی جاتی ہیںجن کی سند بھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ سے نہیں ملتیں اور انہیں بدعت نہیں کہا جاتا۔ شاندار مساجد کی تعمیر، مساجد کے مینار، لائوڈ سپیکروں کا استعمال، دانوں والی تسبیح، قرآن حکیم کے تراجم و تفاسیر، مذہبی کتابوں کی اشاعت، مذہبی تعلیم کا نصاب، مذہبی سرگرمیوں کی تصاویر اور ویڈیو بنانا اور دوسری کئی مذہبی سرگرمیوں کا جواز صحابہ سے کیے ملتا ہے۔ مذہب کے نام پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تشکیل ، مساجد پر دھڑلے سے اپنے فرقہ کا نام لکھنا، جلسے ، جلوس اور سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی سند کس صحابی سے ملتی ہے۔ تمام فرقے اپنے اپنے مذہبی رہنمائوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اجتماع اور سیمینار منعقد کرتے ہیں، کتابیں لکھتے ہیں۔ یہ بھی تو صحابہ سے ثابت نہیں مگراِن سب کو بدعت نہیں کہا جاتا۔ یومِ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ قائدِ اعظم، یومِ اقبال، یومِ دفاعِ پاکستان اور دوسرے ایام پر بھی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ دنیا کے تمام ممالک بشمول سعودی عرب اور خلیجی ریاستیںاپنے قومی دِن مناتے ہیں۔ اِن پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں کی ولادت اورمسرت کے دیگر مواقع پر سب ہی اپنے اپنے انداز میں خوشی مناتے ہیں یہاں تک کہ اگر کرکٹ ٹیم میچ جیت جائے تو جشنِ مسرت پر کوئی معترض نہیں ہوتا۔ دورِ جدید میں سب کارہن سہن، لباس، خوردونوش اور طرزِ معاشرت کسی کی بھی صحابی سے نہیں ملتا۔ ایک بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِن منانے کی مخالفت کرنے والے کچھ حلقے خود خلفا راشدین کے ایام سرکاری طور پر منانے کا نے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیا صحابہ اکرام نے خلفاء راشدین کے ایام منانے تھے۔
ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل سے اگر قلوب میں عشقِ مصطفٰے کی شمع روشن ہوتی ہے اور حضور سے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو یہ قابلِ تحسین ہے اِس لیے اَن پر اعتراض کی بجائے ان کے انعقاد کی ترغیب دینی چاہیے۔ جب دِلوں میں محبت ہوگی تو پھرہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی اور اتباع ممکن ہوگی۔ صحابہ اکرام کا مقام و مرتبہ اپنی جگہ پر مگر اللہ تعالٰی نے اپنی اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا ہے(٣٣٢) اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود وحی یعنی قرآن کی پیروی کرتے تھے( ١٠١٥، ٦٥٠، ٧٢٠٣، ٤٦٩)۔ یعنی پیروی صرف قرآن کی ہے(٦١٥٧)۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے ہی اللہ کی محبت مشروط ہے (٣٣١)۔ میلاد کی محافل کے انعقاد ہی کافی نہیں بلکہ محبت کے دعویٰ کا ثبوت عمل سے دینا ہوگا ۔ قرآنِ حکیم صرف ایمان لانے کو کافی نہیں قرار دیتا بلکہ اس کے ساتھ عملِ صالح کی شرط عائد کرتا ہے(٤١٧٣، ١٠٣٣)۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ قرآن کو اپنی زندگی کا محور بنایا جائے اور یہ بات ملحوظِ نظر رہنی چاہیے کہ قیامت کے روز رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے حضور اپنی امت کی شکایت کریں گے کہ میری اُمت نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا(٢٥٣٠) لہذا ہمیں گفتار کی بجائے کردار کا غازی بننا چاہیے کیونکہ بقولِ اقبال نقش سب ناتمام ہیں خونِ جگر کے بغیر