آج سے چند سال بیشتر پیچھے چلے جائیں اور الیکٹرانکس میڈیا کے ریکارڈ اور پرنٹ میڈیا کی خبریں ملاحظہ کریں تو موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کا ایک ہی نعرہ ایک ہی تقریر ایک ہی عزم تھا کہ قاف لیگ سے ایوان صدر کو خالی کروائیں گے کیونکہ قاف لیگ ملک وقوم کی قاتل لیگ ہے ایوان صدر میں پاکستان پیپلزپارٹی کا ایک عام رکن ہوگا بلاول بھی ہوگا آصفہ بھی ہو گی اور ایوان صدر ہراس کارکن کے لیے کھلاہوگا جس کی جدوجہد آمریت کے خلاف ہوگی ابھی ان باتوں کو گذرے چند سال ہی ہوئے کارکنوں کی لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں ایوان صدر میں زرداری صاحب تو آگئے مگر قربانیاں دینے والے کارکن اپنے حقوق کے لیے اسی طرح جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں ان کارکنوں پر یہ خبر بجلی بن کرگری کہ ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں ایوان اقتدار قاف لیگ سے منتقل ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوتا ہوا پھر قاف لیگ کے محور میں جاتا نظر آتا ہے یہ سب کس لئے، صرف بجٹ پاس کروانے کے لئے ۔یا ۔۔۔۔۔۔۔ان کارکنوں کے ارمانوں کا خون کرنے کے لیے جنہوںنے قاف لیگ کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شہادت پائی حکمرانوں کو بجٹ پاس کروانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں ان میں سے ایک کڑوی گولی قاف لیگ کو وزارتوں کا تحفہ دینا اور اس کے ساتھ اتحاد ہے۔ قوم جانتی ہے کہ بجٹ کے بعد کیا ہو گا حکمران کھائیں گے خزانہ اور مہنگائی بڑھے گی موجودہ حکومت کا یہ بجٹ بھی بقول شاعر۔
روٹی سے محروم، مقروض و مقروم مہنگائی سے تنگ، بھوک اور ننگ
آٹے سے پھنگ، دھوپ کے رنگ موت کی ترنگ میں زندگی سے جنگ
پٹرول سے جلے، چاول کے تلے گرمی کے مارے، غربت سے ہارے
عوام بیچارے کے تو وارے نیارے ہی سمجھا جائے، رہا مسئلہ عوام کی پریشانیوں کا تو اس کیلئے ہی تو حکومت اتناکچھ کررہی ہے کبھی قاف لیگ سے اتحاد کبھی ایم کیوایم سے اتحاد ،مولانا فضل الرحمن کے ترلے منتیں یہ سب قوم کے لیے حکمران کررہے ہیں تاکہ ان کی معاشی حالت بدلی جاسکے موجودہ حکومت کے کارناموں میں ‘سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے سے ہی ایک صوبے کی تو غربت ختم ہوگئی کیونکہ انہیں تو صرف نام بدلنے سے ہی من وسلویٰ اترنا شروع ہوگیا کیونکہ پہلے تو سرحد نام خدا سے جنگ کے برابر تھا ۔ حلف سے انحراف پر غداری کے مقدمے کے ڈر سے اب مہنگائی تو ہوگی ہی نہیں۔عوام کی بھوک ننگ ‘غربت اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے ہی تو حکمرانوں کی ”آنیاں جانیاں ” ہیں اسی عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کیلئے ہی تو وہ اپنے یاروں کو مناتے پھر رہے ہیں کیونکہ وہ یاروں کے یار ہیں لیکن ان کے یار اب انکے ساتھ اچھا نہیں کررہے نتیجتاً زرداری صاحب کو ہی اپنے یار منانا پڑ رہے ہیں اب عوام ہی نہ سمجھیں تو ان کا کیا قصور ہے اور زرداری صاحب تو اسی مصرعے کے مصداق کہ
نی میں یار منانا نی چاہے لوگ بولیاں بولیں اور یا یہ سمجھ لیں کہ مشہور قوالی کابول
جے توں رب نوں منائوناپہلے یار نوں منا رب من جاندا یار نوں منانا اوکھا اے
اب آپ خود سوچیں کہ خود اللہ تعالیٰ نے بھی تو حق دوستی ادا کرنے کیلئے ساری کائنات بنا ڈالی اب یہ ہر شخص پر منحصر ہے کہ وہ اس دوستی کو کس تناظر میں لیتا ہے مگر توجہ طلب بات یہ ضرور ہے کہ حکمرانوں کے اس روٹھنے منانے کے کھیل میں کیا واقعی عوامی مسائل ختم ہو جائیں گے اور اگر جواب نفی میں ہے تو اس صورت میں سوچنا یہ ہے کہ سوچ حکمرانوں کی تبدیل ہونی چاہیے یاعوام کی اگر تو حکمرانوں کی سوچ تبدیل ہونی چاہیے تو وہ ہوگی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک تو یہ صحیح سوچ ہے اور اگر عوام کی سوچ تبدیل کرانی پڑے تو وہ بھی نہیں ہوگی کیونکہ عوام کے نزدیک بھی یہی ہے کہ ہر دہائی میں ایک آدھ مارشل لاء دو تین لولی لنگڑی حکومتوں کے درمیان ایک آدھ امپورٹڈ وزیراعظم پاکستان کی تاریخ ہے اور پھر ہر شخص کے تخفظات خدشات کون سنے اور اسی دوران کئی بجٹ آئے اور گئے تو اس بار کونسا نیاپہاڑ ٹوٹے گا۔
تین سالوں میں تین بجٹ پیش کئے اور میڈیاکے بل بوتے پر ہر طرف الفاظ کی جادوگری دکھائی مگر خمیازہ اب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور موجودہ سال بجٹ میں حکومت کچھ ایسی ہی جادوگری دکھائے گی اور اکثر کام پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنی برائیاں صاف کرنیکی کوشش کریگی حالانکہ اب تو پچھلی حکومت بھی شامل اقتدار ہو چکی ہے وزراء اور ارکان پارلیمنٹ اپنی غربت ختم کرنے میں لگ جائیں گے اور غریب تو پہلے ہی مجرم وقصور وار ہیں کہ وہ غریب ہیں مائیکرو سافٹ ونڈو فرم کے بانی و مالک اور دنیاکے سب سے زیادہ عرصہ تک رہنے والے امیر ترین شخص بل گیٹس نے کہا تھا کہ اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو آپ کا قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب ہی مریں گے تو یہ آپ کاقصور ہو گا اس لئے حکومت کو غریبوں کا قصور بتانے کی ضرورت نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے آبائو اجداد کی اکثریت تو غریب ہی پیدا ہوئی تھی مگر وہ اپنی غربت ختم کر چکے ہیں اس لئے اب انکا قصور معاف ہوگیا ۔ رہی بات بجٹ کی تو اس کے آنے سے قبل کئی افراد سے اور خصوصاً غریب افراد سے بھی اس مسئلے پر بات چیت کرچکا ہوں نتیجتاً اکثریت کی رائے اس بارے میں سوچتی ہی نہیں کیونکہ اس ملک کے غریب باسیوں کو تو ایک وقت کی روٹی کی فکر ہے اور وہ روزی روٹی کیلئے ایسے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں کہ ان کو اس سے اب کوئی سروکار ہی نہیں رہا کہ پٹرول کیوں مہنگا ہوتا جا رہا ہے مزید ٹیکس لگیں گے تو کیا ہوگا مہنگائی بڑھے گی تو سڑکوں پر بھی آنا ہے۔
ہمارے ملک کے غریب تو غربت کی لکیر سے نیچے نہیں بلکہ کئی گنا نیچے بلکہ دفن مدفن زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں عوام مہنگائی کیخلاف کیا سڑکوں پر آئیں اور کیا کریں کہ انہیں تو ایک وقت کی روٹی کی فکر ہے ا ور اس ایک وقت کی روٹی کیلئے وہ جتنے جتن کرتے ہیں انہیں کسی کام کی فرصت ہی نہیں ملتی اگر وہ سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکلیں گے تو انہیں وہ ایک وقت کی روٹی سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے ایسی صورتحال بھی حکومت کے حق میں جاتی ہے کہ حکومت کہے گی کہ عوام غربت سے تنگ ہیں تو سڑکوں پر کیوں نہیں آتے۔اس لئے دوستو جانتے تو ہم سب بھی ہیں کہ بجٹ کے بعد کیا ہوگا بلکہ اس سے قبل بھی کیا ہورہا ہے مگر صرف یہ دیکھئے کہ مہنگائی کا گراف جس قدر تیزی سے اوپر جا رہا ہے حکمرانوں کی مقبولیت کا گراف اسی تیزی سے نیچے کی طرف بھی آرہا ہے مگر یہ بات یقیناً اکثر صاحبان کو اگلے الیکشن میں ہی جا کر معلوم ہوگی جب ان کی اکثریت دوڑ میں بھی شامل نہ ہو گی ہماری تو حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی آنیاں جانیاں ایک دوسرے کو منانیاں جاری رکھیں مگر خداراجیسے اقتدار آپکی ضرورت ہے ویسے عوام کی بھی کچھ ضروریات ہیں جن کا خیال رکھیں اس سے قبل کہ عوام بھی آپ کا خیال رکھنا چھوڑ دیں۔