حضرت علی کا قول ہے کہ حکومت اور اقتدار آنی جانی شے ہے جو چیز باقی رہے گی وہ اچھی شہرت یا بدنامی ہے۔اور آج ہم اِس بات کو کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت جو اپنی مدت کو ہنستے گاتے پوری کرنے کے قریب تر ہے اِس کے حصے میں شایداچھی شہرت سے زیادہ وہ دوسری چیزآئی ہے جس کا ذکر مندرجہ بالا قولِ میں ہے اور اِس کے ساتھ ہی ہم اپنی ایک اور بات کو آگے بڑھانے کے لئے یہ بھی عرض کرناچاہئیں گے کہ کسی چیز کو اتنامت تراشو کہ اِس کا وجودہی مٹ جائے۔اور یوں موجودہ حکومت اپنے قیام کے اول روزہی سے کچھ اداروں اور اشخاض کو تراشنے کے چکرمیں پڑکرنہ صرف اِن کے وجود کے لئے خطرہ بن رہی ہے بلکہ اب تک کے اپنے بنے بنائے وقار کو بھی مجروح کرنے اور اِسے مٹانے کے درپے ہے اور اِسی کے ساتھ ہی جبکہ چارسو اِسے تنقیدوں کا سامنہ ہے اب حکومت کو یہ بات خود ہی تسلیم کرلینی چاہئے کہ یہ شروع دن ہی سے اپنے پرائے کی سازشوں کا شکار رہی ہے اور یہ جن سے آج تک چھٹکارہ نہیں پاسکی ہے اور شاید ہی وہ وجہ ہے کہ اِسے اندرونی اور بیرونی طور پر بھی پریشانی کا منہ دیکھناپڑا ہے جس کی وجہ سے اِس کی پالیسی سازی متاثر ہوئی اور ملک کے بیشتر اداروں میں بروقت پالیسی سازی نہ ہونے کی وجہ سے اِن اداروں کا وجود بھی خطرات سے دوچار ہے جن میں سرِ فہرست محکمہ ریلوے،پانی وبجلی ، گیس اورتوانائی جیسے دیگر شعبے اور محکمے اِن دنوں شدیدمالی مشکلات کے باعث بحرانوں کا شکار ہیں۔ اگرچہ آپ بھی یقینا ہماری اِس بات سے بڑی حد تک متفق ضرور ہوں گے کہ سابق حکومتوں کے ادوار تک توجیسے تیسے ہماراریلوے کا نظام کبھی آمدنی اور کبھی خسارے میں چلتارہامگر آج افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ جب سے موجودہ مصالحت پسند صدر زرداری کی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے تواِس نے اپنی ایک اتحادی جماعت کے ایک رکن(جناب غلام احمد بلورجو نہ صرف ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں بلکہ اِن کی شخصیت کئی حوالوں سے منفرد مقام کی حامل ہے جس میں اِن کا محب الوطنی اور ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کا جذبہ سرِ فہرست ہے اِن تمام خوبیوں سے مالامال رہنے والی ہمارے ملک کی یہ عظیم المرتب شخصیت) کوجب سے وفاقی وزیرریلوے بنایاہے تب سے ہی ہر خاص و عام کے مشاہدے میں یہ بات آنی شروع ہوگئی تھی کہ ہمارے ریلوے کے نظام کا آہستہ آہستہ زوال شروع ہوگیاہے اور کسی کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھاکہ ریلوے کا اتناعبرت ناک انجام بھی ہوجائے گاکہ دنیاکے دوسرے ممالک اِس سے عبرت حاصل کریںگے۔ اور تو اب حقیقت یہ ہے کہ اِن سطور کے رقم کرنے تک ہمارے ریلوے نظام کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ شایدیہ اِن نااہل وفاقی وزیرریلوے کی فرسودہ منصوبہ بندیوں اور ناقص حکمتِ عملیوں کاہی نتیجہ ہے کہ محکمہ ریلوے اپنی خستہ اور زبوحالی کے باعث ختم ہوکررہ گیاہے اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی آپ کرسکتے ہیں کہ اب اِس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لئے بھی رقم نہیں ہے دوسری جانب یہ حقیقت گزشتہ دنوں اس وقت عیاں ہوئی جب ریلوے ملازمین نے اپنی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے خلاف پورے ملک میں ایک ساتھ ریل کا پہیہ روک کا اپنابھرپور احتجاج کیاتو حکومت اور صدرزرداری کے کانوں پربھی جوں رینگی تو انہوں نے ریلوے ملازمین کے اِس بنیادی مسئلے کے حل کی جانب فوری توجہ دی اور صدرزرداری نے اپنی تمام دیگر مصروفیات ترک کرتے ہوئے ریلوے کے احتجاجی ملازمین کے اِس جائز مسئلے کے فوری حل کے لئے ایوان صدر میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور( یہاںہم جیسے کئی کروڑ پاکستانی یہ بات اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ معلوم نہیں صدر کا بلایاجانے والا یہ ہنگامی اجلاس محض دکھاوے اور میڈیامیں خبروں اور تصویروں کی صرف زینت بننے کی حد تک ہی محدودتھا یا ….؟؟)جیسا کہ صدرزرداری نے حقیقی معنوں میں سات یوم کے اندراندر ریلوے کے احتجاجی ملازمین کی تنخواہوں اور پیشن کی ادائیگی جیسے مسئلے کے لئے فنڈزجاری کرنے کی خصوصی ہدایت جاری کی ہے ا ِس پر عمل بھی ہوگا یا نہیں….؟ اس کااندازہ تو چند دنوں میں ہوہی جائے گا۔کہ صدرکی ہدایت کیاہوئی اور فنڈزکا کیابنا۔ بہرحال! ہم اِس موقع پربس یہی کہیں گے کہ یہ صدر ِ مملکت جناب آصف علی زرداری کی ایک اچھی کوشش تھی جس نے کئی ماہ سے تنخواہوں اور پنشن سے محروم ریلوے ملازمین میں پائے جانے والے غم وغصے کوبڑی حدتک کم کرنے میں بڑی حد تک معاونت کا کام کیا تو ادھروفاقی وزیرریلوے غلام احمدبلور نے بھی اجلاس میں محکمہ ریلوے میں پیداہونے والے بحران کی وجہ سے اِس کی متاثر ہوتی ہوئی کارکردگی کے حوالے سے تفصیل بتاتے ہوئے اِس بات کا انکشاف کیاکہ لگ بھگ تین ، ساڑھے تین سالوں سے محکمہ ریلوے میں انجنوں کی کمی اور خرابی اور اِسی طرح ڈیزل کی کمی اور ملازمین کی عدم دلچسپی کے باعث محکمہ ریلوے کو ما ل برداری میں شدید مشکلات کا سامنہ کرناپڑرہاہے جس کی وجہ سے ریلوے کو9ارب یا اِس سے بھی زائد روپے کا رخسارہ ہواہے یعنی سمجھ لیجئے کہ یہی وہ رخسارہ ہے جس کی وجہ سے ریلوے کی آمدنی صفر ہوکررہ گئی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں حیران اور پریشان کردینے والا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اجلاس میں وفاقی وزیرریلوے نے اپنی بریفنگ کے دوران اطمینان اور اعتماد سے جب یہ انکشاف کیاتو کسی بھی حکومتی شخص نے اِن سے یہ سوالات کیوں نہیںکئے کہمسٹر غلام احمدبلور صاحب!جب آپ اِس محکمے کے وزیرہیں تو اِس میں بحران کیوں آیا….؟اورآپ نے تین سالوں میں ریلوے میں پیداہونے والے بحران کو کنٹرول اور اور اِسے بروقت ختم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو کیوں نہیں استعمال کیا…؟اور اب آپ اپنی نااہلی پر ہنستے ہوئے اطمینان اور اعتماد سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انجنوں کی کمی اور دیگرمسائل کی وجہ سے ریلوے کو نوارب روپے کا نقصان ہواہے اور اب اِس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لئے بھی پیسے نہیںہیں اور منافع کمانے والا یہ ادارہ آج ایک ایک پائی کا محتاج کیوں ہوگیاہے…؟یقینااِس کو اِس نہج تک پہنچانے میں مسٹر غلام احمد بلور تمہاری نااہلی وناقص حکمتِ عملی سمیت تمہاری وہ عدم دلچسپی بھی ہے جو تم نے اِس قومی ادارے کے ساتھ محض اِس لئے روارکھی کہ اِس ادارے کی تباہی سے ٹرانسپورٹرز کو فائدہ پہنچے گا جس کے لئے تم نے اِس قومی ادارے کو تباہ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں گیا….؟قارئین حضرات! اور اب اِس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ وفاقی وزیرریلوئے غلام احمدبلور نے اسلام آباد میں اپنی ہی ایک پرہجوم پریس کانفرنس میںصدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری کو مخاطب کرکے بڑے عزم و ہمت سے یہ مشورہ بھی دے ڈالاہے کہ جیسامیںصدر آصف علی زرداری سے پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ ریلوے میں اب کچھ نہیں رکھاہے اِسے بندہی کردیں یہ ادارہ اپنے خسارے کی وجہ سے ملکی معیشت پر بوجھ بن گیاہے آخرحکومت اب کب تک اِس فضلوکے ادارے کوقومی خزانے سے رقم کی ادائیگی کرتی رہے گی …؟اور چلاتے رہے گی …؟اور قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈالاکر اپنے دیگر ترقیاتی اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں اور اسکیموں کو متاثرکرتی رہے گی …؟اِس کے علاوہ وفاقی وزیرریلوے نے اپناسینہ پھولاکر اور ساتھ ہی گردن تان کر یہ بھی کہاکہ انہوں نے صدر کو یہ بھی کہاہے کہ دنیامیں وہ ممالک بھی تو ہیں جو بغیرریلوے کے ہی چل رہے ہیں جہاں ریلوے نہیں ہے….اور عوام کو اِس سے اچھی اور سستی سفری سہولت میسر ہے اور اِس کے ساتھ ہی ستم ظریفی یہ کہ وفاقی وزیر موصوف نے اِس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایااوانہوںنے خود کو بچاتے ہوئے صدر زرداری سے یہ بھی کہہ دیاکہ صدرِ محترم! اگرآپ ریلوے کی بحالی میں مجھے ہی رکاوٹ سمجھتے ہیں تومیں اپنااستعفی دینے کے لئے تیار ہوں مگر یہ بھی ذہین میں رہے کہ ریلوے کو دوبارہ فعال ادارہ بنانے اور اِسے اچھی حالت میں لانے کے لئے 50سے 60ارب روپے درکارہیں اِس وقت جبکہ محکمہ ریلوے بحران کا شکار ہے ایسے میں ہمیں ایک سو سے چارسولوکوموٹوز کی اشدضرورت ہے اورغلام احمد بلور نے کہاکہ ہم اسٹیٹ بینک کے چالیس ارب کے مقروض ہیںاِس لحاظ سے ہرسال سود کی مد میں (خسارے کامنہ دیکھنے والا)یہ محکمہ ریلوے 4.6ارب روپے دیتاہے ہاں البتہ !وفاقی وزیرریلوے نے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی کہ اگر ریلوے کو گزشتہ دوسال پہلے لوکوموٹوزدے دیئے جاتے تو ریلوے کے اتنے برے حالات ہرگزپیدانہ ہوتے جتنے آج ہوگئے ہیں اور ساتھ ہی غلام احمد بلور کا یہ بھی کہناتھا کہ 500ملین کے لئے اسلامی بینک سے بات چیت جاری ہے جبکہ گزشتہ سال 22ارب روپے آمدنی ہوئی تھی اِس کے برعکس اِس سال آمدنی کم ہوکر صرف 12ارب روپے رہ گئی ہے انہوں نے اپناسینہ ٹھونک کر بڑے پرتباک اور جوشعلے اندازکے ساتھ انتہائی عزم وہمت سے یہ بھی کہاکہ اگر 25نئے لوکوموٹوز مل جائیں تو مارچ 2012تک ریلوے کی آمدنی کو بہترکرلیاجائے گا۔ یہاں ہم اپنے وفاقی وزیرریلوے غلام احمدبلور کی اپنی نوعیت کی اِس انوکھی پریس کانفرنس اور اِس میں اِن کی جانب سے صدر زرداری کو پیش کئے جانے والے مشورے اور دیگرضروریات کے حوالے سے کوئی لمبی چوڑی بات کہنے کے بجائے صرف اتناکہناہی مناسب سمجھتے ہیں کہ جناب بلور جی!آپ صدرمملکت جناب آصف علی زرداری سے محکمہ ریلوے کے علاوہ اور کس کس محکمے کو بندکرنے کی سفارش کریں گے چونکہ زرداری صاحب کی حکومت میں تو کوئی بھی ایسامحکمہ نہیں ہے جو مستحکم نظرآرہاہواور کوئی ایساقومی ادارہ نہیں ہے جو بغیرخسارے کے چل رہاہوتو یہاںبہتر یہ ہوتاکہ آپ اپنے محکمے کے حوالے سے نیچے کے ممالک کا خود سے موازانہ کرتے آپ کو دنیاکے وہ بڑے اور جدیدممالک کیوں نہیں نظرآئے جہاں ریلوے کا نظام پوری طرح سے کامیاب ہے اور ان ترقی یافتہ اور ایٹمی ممالک کے عوام کا ایک بڑاحصہ روزانہ ہزاروں میل کا سفر ریل سے کرتاہے کیونکہ اِ ن ممالک کے حکمرانوں کی بھی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ محکمہ ریلوے کو زیادہ سے زیادہ جدیداور سائنسی تقاضوں سے ہمکنار کریں تاکہ یہ اپنے عوام کو ریل کا سستااور آرام دہ سفرمہیاکرسکیں یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے چلیں کہ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت 136ممالک میں اچھایابراریلوے سسٹم رائج ہے رینکنک کے لحاظ سے جس میں بدقسمتی سے پاکستان کا 27واں نمبر ہے اور سب سے زیادہ کامیاب اور ہائی اسپیڈ جدیدریلوے نظام دنیا کے سات بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھر پورطریقے سے کام رہاہے اِس نظام سے جہاںاِن ممالک کے عوام کو سستی سفری سہولت حاصل ہے تووہیں یہ ادارے کماکر بھی دے رہے ہیں اِن ممالک میں اسپین، چائنا، فرانس تائیوان، جاپان، اٹلی، جرمنی اور امریکاشامل ہیں کہاجاتاہے کہ امریکاجیسے دنیاکے جدیدترین ملک میںروزانہ ریل224,792کلومیٹر، روس میں87,157،چائنامیں86,000،انڈیامیں63,974،کینیڈامیں46,552،جرمنی میں41,981،آسٹریلیامیں38,445،ارجنٹائنامیں36,966، فرانس میں29,640اور پاکستان میںہماری ریل صرف 7,791کلومیٹرکا سفرکرتی ہے اِس طرح اگر دیکھاجائے توہمارے حکمران اگرابھی چاہیں تو اپنے محکمہ ریلوے کی کارکردگی کو بہتربناکراِس کو بھی دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لاسکتے ہیں مگر اِن کا مایوسی کے ساتھ یہ کہناکہ ہمارامحکمہ ریلوے کسی کام کا نہیں رہاتو یہ اِن کی نااہلی اور اِن کی کسی اور معاملے میں ذاتی دلچسپی کا باعث تو ہوسکتاہے مگر محکمہ ریلوے کی کارکردگی کو بہتربنانے جیسے اقدامات پر سوالیہ نشان نہیں ہوسکتاہے۔ادھرمحکمہ ریلوے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے اِسے بحران اور تباہی سے بچانے کے لئے ہمارے وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے بھی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیراہتمام اچیومنٹ ایوارڈکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تاجربراد ری کو کھلے الفاظ میں پیشکش کردی ہے کہ اگر وہ اسٹیل مل اور ریلوے کو چلاناچاہتی ہے تو ہم اِنہیں دینے کے لئے تیار ہیں اِس موقع پرہم یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اِن کی حکومت محکمہ ریلوے کو چلانے اور اِسے منافع بخش ادارہ بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور اب وہ اپنے ملک کی تاجربرادری کو ہی یہ پیشکش کرتے ہیں کہ وہ محکمہ ریلوے اور اسٹیل مل کو مستحکم بنیادوں پر چلانے کے لئے یہ ذمہ داری قبول کرے اور اِن اداروں کو ملک اور قوم کے بہترمفادات میں تباہ ہونے سے بچانے اور ایک منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے آگے بڑھیں۔ اب ہم آخر میں یہ بات پورے یقین سے یہ کہیں گے کہ ہم ابھی تک اغیار کے غلام ہیں یہ بات ہم نے اِس لئے کہی ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں غلام ہی حکومت کرتے ہیں کیوںکہ غلام کبھی اپنی مرضی سے یعنی اپنے آقاکے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتے ایسے ہی ہمارے حکمران بھی کرتے ہیںکیونکہ اِنہیں اپنے آقاوں سے اداروں میں اصطلاحات کی اجازت نہیں ملی ہوگی تو یہ اپنے قومی اداروں میں بھلاکیسے بہتری لاسکتے ہیں اوراِس بناپر ہم یہ بھی کہیں گے کہ جب تک ہم اور ہمارے حکمران اغیار کی غلامی سے نہیں نکلتے ہمارآنے والادن گزرے دن سے بہترنہیں ہوگاتو تب تک ہم یوں ہی جمودکا شکاررہیں گے۔اور اِس کے ساتھ یہ بھی کہ حکومت اپنی یہ روش بھی ختم کردے کے قومی اداروں سے اِن کے اخراجات کو کم کرنے اور اِن کی کارکردگی کوبہتربنانے کے لئے ملازمین کو نکال دیاجائے تو ادارے مستحکم ہوجائیں گے تو یہاں ہم ارسطوکی سکندرِ اعظم کو دی جانے والی یہ نصیحت بیان کرکے اجازت چاہیں گے کہاگرکسی ملازم کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آئے تویہ بات اچھی طرح سوچ سمجھ لینی چاہئے کہ ملازمین کو برطرف کرنابچوں کاکھیل نہیں ہے اِس سے ملک اور معاشرے میں بہت سے اخلاقی ، سیاسی اور معاشی برائیاں جنم لے لیتی ہیں جو حکمرانوں کے لئے امورِمملکت چلانے میں مشکلات کاباعث بنتی ہیں۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم