غیر سرکاری تنظیمیں جنہیں عرفِ عام میں این جی اوز کہا جاتا ہے قانونی حیثیت سے ترتیب پانے والے ایسے ادارے ہوتے ہیں جو کسی بھی ریاست میں غیر حکومتی افراد تشکیل دیتے ہیں اور سرکار کی مالی امداد کے باوجود یہ ادارے اپنا جدا تشخص برقرار رکھتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ ادارے کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کا دائرہ کار بیرون ممالک تک پھیل چکا ہے البتہ مختلف مشنریاں اور ادارے مختلف مقاصد کے تحت کام کرتے ہیں۔ بعض غیر سرکاری ادارے واقعتا انسانی ہمدردی کے پیش نظر نیک نیتی اور نیک جذبے کے ساتھ فلاحی کام کرتے ہیں جبکہ کچھ اداروں کے اپنے ذاتی اور مذہبی مفادات ہوتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان سمیت تیسری دنیا کے غریب ملکوں میں امداد کے نام پر کام کرنے والی اکثر غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی سرگرمیوں پر تنقید کی جاتی ہے اور انہیں طاقت ور اور امیر ملکوں کے خفیہ ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے مگر عالمی دبائو کے باعث چھوٹے ممالک ان کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے یا باز رہتے ہیں۔
تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں طاقتور ملکوں کی بہت سی این جی اوز انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مختلف فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔بلاشبہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی خدمات لائق تحسین ہیں مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بیشتر ممالک میں امریکا اور یورپ کی بہت سی این جی اوز فلاحی کاموں کی آڑ میں اپنے مفادات کیلئے سرگرم ہیں جبکہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی بعض مقامی این جی اوز بھی درپردہ اس کھیل کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ روس جیسا کمیونسٹ ملک ایک مسودہ قانون کے ذریعے بیرون ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے والی ایسی تنظیموں کو ”غیر ملکی ایجنٹ” قرار دے چکا ہے جبکہ ماضی میں بھارت بھی روس سے ایٹمی تعاون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے پیچھے متحرک چار غیر ملکی این جی اوز سمیت جن ستر سے زائد غیر سرکاری تنظیموں کو مشکوک قرار دے کر اپنی واچ لسٹ میں شامل کر چکا ہے اُن میں سے بیشتر کا تعلق امریکا اور یورپ سے ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ روس نے جب ایسی تنظیموں کو ایجنٹ قرار دیا تو اس پر سب سے زیادہ احتجاج بھی واشنگٹن اور یورپی یونین نے کیا۔پاکستان میں رونما ہونے والی قدرتی آفات کے دوران مختلف ناموں اور طریقوں سے ملکی اور غیر ملکی این جی اوز تعلیمی اور امدادی کاموں کے نام پر ہر طرف پھیل چکی ہیں۔ بہت سی این جی اوز واقعتا مثالی کارکردگی دکھا رہی ہیں جبکہ بعض کی امدادی سرگرمیاں بظاہر درست مگر درپردہ عزائم اور کردار مشکوک ہے۔ یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ زلزلہ اور سیلاب کے دوران منفی کردار کی حامل این جی اوز نہ صرف لوگوں کو عیسائی اور یہودی بنانے کیلئے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام کے خلاف گھنائونی سازش میں بھی مصروف رہیں۔ امریکی مصنفین ڈی بی گریڈی اور مارک ایمبنڈ بھی اپنی کتاب ”دی کمانڈ، ڈیب انسائیڈ دی پریسیڈنٹس سیکرٹ آرمی” میں اس راز سے پردہ اُٹھا چکے ہیں کہ امریکا نے آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زلزلہ کے بعد افراتفری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سی آئی اے کے درجنوں خفیہ ایجنٹ پاکستان بھیجے جنہوں نے بعد میں ایبٹ آباد آپریشن میں بھی حصہ لیا۔
ڈیموکریسی کے پھیلائو اور انسانی مقاصد کے حصول کے دعوے کی بنیاد پر تشکیل پانے والی این جی اوز اصل میں خارجہ پالیسیوں کے اجراء میں امریکی حکومت کا ایک ہتھکنڈہ ہیں۔ امریکا اس وقت دنیا میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے فوجی طاقت کے استعمال کے علاوہ این جی اوز کو بھی وسیع پیمانے پر استعمال کر رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں، خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں بہت سی ایسی این جی اوز متحرک ہیں جو امریکی جاسوس ادارے سی آئی اے کی فرنٹ لائن تصور کی جاتی ہیں۔ ایسی این جی اوز کا کام بظاہر انسانی ترقی ہے مگر پس پردہ یہ بیرون ممالک کی ایجنٹ ہوتی ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن کے فوری بعد بین الاقوامی این جی اوز سیو دی چلڈرن اور آئی میپ (انفارمیشن مینجمنٹ اینڈ مائن ایکشن پروگرام) کی پاکستان میں حساس سرگرمیوں اور موجودگی کو ملک کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ سنجیدہ حلقے پاکستان میں یو ایس ایڈ کی سرگرمیوں کو بھی مشکوک گردانتے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق یہ بین الاقوامی ادارہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی پالیسی اپنے حق میں تبدیل کرنے کیلئے اشتہارات کی مد میں خطیر رقم فراہم کر رہا ہے۔
یو ایس ایڈ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، انتخابی اصلاحات، سکیورٹی اداروں کی استعدادی صلاحیت میں اضافے، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں عوامی شعور بلند کرنے سمیت متعدد منصوبوں پر کام کر رہا ہے مگر سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ ادارہ ملک کے حکومتی و ریاستی سیٹ اپ میں گھس کر خفیہ معلومات تک رسائی کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ ایک مؤقر انگریزی اخبار میں 29 اپریل 2011ء کو شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) نے غیر سرکاری طور پر ملک کی بڑی سکیورٹی ایجنسیوں کو اپنے ان خدشات سے آگاہ کیا ہے کہ یو ایس ایڈ کے مخصوص افسران بظاہر خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ اور عملدرآمد کیلئے سی آئی اے کی جاسوسی کر رہے ہیںجبکہ اس بین الاقوامی ادارہ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں بھی یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ یو ایس ایڈ کی سرگرمیاں قومی خود مختاری کے خلاف ہیں۔
Khamosh Tamasha Najeem Shah
روس نے بیرون ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے والی این جی اوز کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دینے کے بعد اگلے مرحلے میں ایک اور اہم قدم اُٹھاتے ہوئے یو ایس ایڈ کو بھی ملک کی سیاست میں دخل اندازی کے الزام میں روس سے نکل جانے کا حکم دیا ہے جس کے بعد سے یو ایس ایڈ نے وہاں پر اپنے ترقیاتی کام روک دیئے ہیں۔ پاکستان کی بقاء کیلئے بھی یہ ضروری ہو گیا ہے کہ روس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسی تمام این جی اوز پر پابندی لگا دی جائے جو فلاحی کاموں کی آڑ میں جاسوس سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔