اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا”اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ(باہر نکلا کریں تو)اپنے (مونہوں)پر چادر لٹکا(کرگھونگھٹ نکال) لیا کریں۔یہ عمل ان کے لیے موجب شناخت (امتیاز)ہوگا توکوئی ان کوایذانہ دے گا۔اور خُدا بخشنے والا مہربان ہے”(سورة الاحزاب (پردے کے احکامات تفصیل کے ساتھ سورہ نور میں بھی نازل ہوچکے ہیں۔جب اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دیا تو انہوں نے فوری طور پروہ کرنا شروع کردیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب مسلمان عورتیں چادر اُوڑھ کرباہر نکلتی تودور سے پتا چل جاتا تھاکہ وہ کوئی مسلمان عورت ہے۔ تو وہ اوباش نوجوان راستہ سے ادھر اُدھر ہوجاتے تھے اور پردہ دار عورت کو چھیڑنے کی ہمت نہ کرتے تھے۔
مسلمان عورتوں کے پردہ کرنے سے اوباشوں کو معلوم ہوگیا کہ اگر ان کو چھیڑا تو بے عزت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان مردوں سے مار بھی پڑسکتی ہے تو ایسے لوگ پردہ دار عورت کو دیکھ کر دور سے رفوچکر ہو جاتے تھے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے پردہ شرافت وعفت غیرت و وقار اور شرم و حیا کا نشان بنا دیا۔اسلام نے جس پردے کا حکم دیا ہے اس میں صرف منہ کو چھپالینا کافی نہیں ۔علماء کرام کے مطابق اسلام میں واضح طور پر امہات المئومنین اور دختر ان رسالت مآبۖکو خصوصاًاور تمام مسلمان عورتوںکو عموما ًحکم دے دیا گیا کہ جب وہ گھروں سے نکلیں توآبرومندانہ طریقے سے نکلیں ،ایک بڑی چادر سے اپنے سارے جسم اور چہرے کواچھی طرح ڈھانپ لیں صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کی غرض سے ننگی رکھ لیں۔ بات یہاں ختم نہیں بلکہ شروع ہوتی ہے کیونکہ پردہ صرف جسم کو ڈھانپ کر اپنے آپکو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا لینے کانام نہیں ہے بلکہ پردہ سے مراد ہے کہ مسلمان عورتیں اپنی نگاہ نیچی رکھیں۔
راستہ چلتے وقت اُونچی آواز میں گفتگو نہ کریں اور اِدھر اُدھر تاک جھانک نہ کریں ۔مسلمان عورتوں کو پردہ کے قریب رکھنے کی غرض سے اسلام میں مسلمان مرد وں کو حکم ہے کہ وہ نیک سیرت عورتوں سے نکاح کریں۔حدیث شیریف میں آتا ہے کہ عورتوں سے ان کے حسن کی وجہ سے شادی نہ کروہوسکتا ہے ۔ان کا حسن تمھیں برباد کردے ۔نہ ان کے مال دولت کی وجہ سے شادی کروہوسکتا ہے ان کا مال تمھیں گناہوں میں مبتلا کردے ۔تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دین دار عورتوں سے شادی کرویہاں تک کے اگر کالی ،دبلی،بدصورت خادمہ بھی دین دار ہوتو بہتر ہے۔ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں مسلمانوں کی بھلائی ہے بے شک اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا فرماتا ہے ۔افسوس کے آج کے نام نہاد مسلمان اپنے آپکوفراغ دل کہہ کر فحاشی ا ور عریانی کو اس طرح عام کررہے ہیں کہ جیسے اسی میں انسانی فلاح ہے ۔خیر میں ایسے لوگوں پر تنقید کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتا اس لیے آج صرف ان لوگو ں کو خوش آمدید کہنا چاہتا ہوں جو فحاشی اور عریانی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں ۔ایسا نہیں کہ دنیا میں سچے مسلمان نہیں رہے ۔حقیقت یہ ہے مسلمان اسلام دشمنوں سے تنہا،تنہا لڑرہے ہیں جبکہ دشمنوں نے اتحاد کررکھا ہے۔
آپکو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کرائی گئی تھی جس میں سکول و کالجز میں ناچ گانے پر پابندی لگانے پر زور دیا گیا تھا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت الیکٹرونکس میڈیا نے قرارداد کو کس قدر منفی انداز میں پیش کیا تھا۔یہی میڈیا کراچی ،بلوچستان سمیت ملک میں ہونے والی قتل و غارت اورحکمرانوں کی کرپشن پر تو خاموش رہتا ہے لیکن جب حکمران درست سمت میں قدم اُٹھاتے ہیں تو اس قدر شور برپا کرتا ہے ،فحاشی و عریانی کی لعنت میں ڈوبے لوگوں کی آواز اس قدر اُٹھاتا ہے کہ درست سمت میں اُٹھے قدم واپس لوٹ جاتے ہیں۔لیکن آج میڈیا ہی کے کچھ لوگوں نے فحاشی اور عریانی کے خلاف علم جہاد بلند کررکھا ہے ۔جن میں انصار عباسی ۔سید طلعت حسین اور سہیل احمد سرفہرست ہیں۔میں جانتا ہوں کہ سہیل احمد بڑے عرصے سے بے غیرتی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب کچھ اور لوگ بھی اس جہاد میں شامل ہوچکے ہیں ۔میں آج فحاشی و عریانی کے خلاف جنگ کرنے والوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ اس نیک کام میںوہ اکیلے نہیں پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔پوری قوم کی بات میں اس لیے کررہا ہوں کہ صرف مجھے سینکڑوں دوستوں نے sms.emailsاورفیس بک پرفحاشی کے خلاف جنگ میں انصار عباسی،سید طلعت حسین اور سہیل احمد کاساتھ دینے اور فحاشی کے خلاف لکھنے کا حکم دیا ہے ۔میں سمجھتا ہوںکہ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اصل حقائق تک رسائی دی جائی اور لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے ۔جس میں اولین فرض علماء کا ہے لیکن وہ خاموش ہیں ۔فحاشی و عریانی کو برا کہنے والوں کو تنگ ذہن کہنے والے کبھی اپنے کھلے ذہن سے پیدا شدہ حالات کا جائزہ لیں۔کبھی نشے کی حالت سے نکل کر مسلمان کی اولاد بن کردیکھیں ۔کبھی دیکھیں کہ ہمارے بڑے فحاشی و عریانی سے کس قدر نفرت کرتے تھے ۔اور اے خود کو مسلمان کہنے والے کبھی اپنے دین سے پوچھ کہ وہ فحاشی عریانی کے متعلق کیا حکم دیتا ہے۔
obscenity
کبھی دیکھ تیری نئی نسل کا اس بے غیرتی نے کیا حال کردیا ہے ۔میرے نزدیک تو دنیا کی ہر برائی فحاشی سے جنم لیتی ہے ۔میں بھی اس جہاد میں اپنی اوقات سے بڑھ کر حصہ لینا چاہتا ہوں لیکن میڈیا پر جاری فحاشی مخالف موجودہ جنگ کی بنیاد نہیں ہے ۔یہ جنگ بھی اسی خبر کی طرح ہے جس کہ سچی ہونے کے باوجود متعلقہ ادارے کو اگلے دن تردید کرنی پڑے ۔جس میں ذاتی اناء شامل ہوجائے وہ جنگ جہاد نہیں ہوسکتی ۔جہاد تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوتا ہے ۔جہاد کی بہت سی اقسام ہیں ۔جہاد بے جاہ قتل و غارت کا نام نہیں ۔اللہ کے حبیب حضرت محمد ۖ سے بڑا جہاد نہ کسی نے کیا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی کرسکے گا۔اسلام میں جہاد کے واضح اصول و ضوابط ہیں۔جہاد ایک منظم کوشش کانام ہے ۔بغیر کسی وجہ کے کوئی شخص یا گروہ اپنی مرضی سے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مسلح جدوجہد شروع کردے تواسے جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جہاد کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی مملکت کا سربراہ باقائدہ حکم د ے۔میرے خیال میں فحاشی اور عریانی کے خلاف مسلمانوں کو عالمی سطح پر جہاد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔جس میں صرف عوام نہیں بلکہ تمام مسلمان ممالک کی حکومتیں شامل ہوں لیکن ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک مسلم ممالک میں باشریعت مسلمانوں کی حکومت نہیں بنتی۔