اخبار نیو یارک ٹائمز نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت پر متوقع ووٹنگ کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اور امریکہ، یورپ اور اسرائیل نے اِس سلسلے میں کسی مفاہمتی حل کو تلاش کرنے کے لیے عجلت یا جرات مندی کا اظہار نہیں کیا ہے، جب کہ حال ہی میں علاقے میں اسرائیل کے ترکی اور مصر کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔اقوام متحدہ میں رکنیت حاصل کرنے سے پیشتر سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ فلسطین کی رکنیت کے بارے میں قرارداد کو ویٹو کردے گی۔ ایسی صورت میں فلسطین ایک غیر رکن کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریگا۔دوسری طرف، امریکی کانگریس نے دھمکی دی ہے کہ اگر فلسطین نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ پر اصرار کیا تو اس کی امداد روک دی جائے گی۔ اِسی طرح، اسرائیل نے بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکس کی مد میں دی جانے والی کروڑوں ڈالر کی رقم میں کٹوتی کردے گا۔اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اِن اقدامات سے منفی اثرات مرتب ہونے کا بھی امکان ہے اور اِس کا فائدہ حماس اٹھا سکتی ہے۔دوسری طرف، امن مذاکرات کے بعض پہلوں کے بارے میں امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات بدستور قائم ہیں۔اخبار کے مطابق مسٹر اوباما کو چاہیئے کہ وہ اپنی قائدانہ حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسٹر نتن یاہو اور مسٹر عباس پر زور دیں کہ وہ امن مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔ اگر اقوام متحدہ میں اِس معاملے پر رائے شماری ہوئی تو امریکہ اور اس کے حلیف اِن نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوششیں ضرور کریں گے۔اخبار لاس انجلیس ٹائمز نے 9/11کی دسویں برسی کے حوالے سے اپنے اداریے میں سکیورٹی کے سلسلے میں کیے جانے والے حکومتی اقدامات کو موضوع بنایا ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ حکومت نے کچھ بہتر کام کیے ہیں اور کچھ بہتر کام نہیں کیے۔ تاہم، اب بھی سابقہ غلطیوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت باقی ہے۔ داخلی طور پر مختلف قسم کی تیاریوں اور اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے، اخبار لاس انجلیس ٹائمز نے اِس سلسلے میں امریکی خارجہ پالیسی پر بھی اظہارِ رائے کیا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ ا مریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں بین الاقوامی تعاون کے حصول کی کوششیں کی ہیں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے حکومت نے بعض دوسری ترجیحات کو نظرانداز کردیا ہے۔ مثلا باہمی تجارت کا فروغ یا موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے اقدامات۔ظاہر ہے کہ اِن کا تعلق مستقبل کی خوش حالی سے ہے اور یہ بالآخر داخلی سکیورٹی کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ 9/11کے بعد حکومت کی جانب سے کیے گئے بیشتر اقدامات ناکام نہیں ہوئے۔ بیرونِ ملک القاعدہ کی طاقت کو کمزور کیا گیا، اسامہ بن لادن ہلاک کردیے گئے، بہت سے خطرناک دشمن ہلاک یا گرفتار ہوچکے ہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ یہ درست ہے کہ امریکی عوام کی سلامتی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ مگر، اس کو محفوظ رکھنے کے لیے اس خوف و ہراس یا گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے جو آج سے دس سال پیشتر موجود تھی۔ ہنگامی طور پر اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو تبدیل کیا جانا چاہیئے۔اخبار یو ایس اے ٹوڈے نے امریکہ کے اقتصادی بحران پر اپنے ادارتی مضمون میں صدر اومابا کی اس حالیہ تقریر کو موضوع ِ بحث بنایا ہے جِس میں انھوں نے امریکہ میں جاری اقتصادی بحران کو حل کرنے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ایک نیا بِل متعارف کرایا ہے۔ صدر اوباما نے جمعرات کے روز کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اِس کے چیدہ چیدہ نکات کی وضاحت کی تھی۔اخبار لکھتا ہے کہ امریکی عوام اب اِس بات کے منتظر ہیں کہ صدر اوباما کے اِس نئے بِل سے کس طرح اور کب اقتصادی مسائل حل ہو سکیں گے۔