طاہر القادری اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے مابین ڈائیلاگ کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔پوری قوم جو پچھلے ایک ہفتے سے غیر یقینی اور زہنی ازیت سے دوچار تھی نے سکھ کا سانس لیا۔ لانگ مارچ اچانک عذاب کی صورت میں اسلام اباد پر نازل ہوا۔مشکوک اور امپورٹڈ نعرے باز گھمنڈی عالم دین نے علم البیان اور علم الکلام کے ایسے جوہر دکھائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ قادری کا دھرنا ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا۔
قادری کا موقف لاہور سے اسلام اباد تک پے درپے تبدیل ہوتا رہا۔ قادری کے پیروکار جو انقلاب کا وژن ساتھ لائے تھے وہ تو پورا نہ ہوسکا البتہ قادری پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب ٹھرا۔ قادری کو ایک کریڈٹ نہ دینا ساتھ ناانصافی ہوگی ۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کے کاروان قادری کی ناقابل لغزش استقامت نے حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و متفق بنا دیا۔
لاہور سے اسلام اباد اور پھر ڈی چوک میں دھرنے کے اغاز و اختتام پر لانگ مارچ کی ہسٹری پر خامہ فرسائی کے دوران راقم الحروف کو خلیل جبران دور کے پادری فادر سیماب کی داستان نے تاریخ کے صحراوں میں گھوڑے دوڑانے پر مجبور کردیا۔یہ داستان پہلے بھی میڈیا میں شائع ہوچکی ہے۔ خلیل جبران نے اپنی یاداشتوں میں فادر سیمان سٹوری کو یوں قلم بند کیا ہے۔فادر سیمان کا تعلق لبنان سے تھا۔ وہ اپنے دور کا مشہور و معروف روحانی اور دینی رہنما تھا۔ اسکے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں تھی۔ اسکی اصل وجہ شہرت روحانی حکمت میں پنہاں تھی۔
فادر سیمان مذہبی تعلیمات سیروحانی علاج کا مستند ماہر تھا۔ وہ سارا سال لبنان کے دور دراز علاقوں میں جا کر لوگوں کو گناہ ثواب کا تفصیلی درس دیتا۔ وہ پیروکاروں کو شیطان کی شیطانیت سے بچاو کے گر سکھاتا۔ فادر سیمن ایک روز اپنے سفر پر رواں دواں تھا کہ راس میں اسکے کانوں میں کسی کی اواز گونجنے لگی۔ سیمان نے مڑ کر دیکھا تو ایک شخص زخمی حالت میں تڑپ رہا تھا۔ اسکے منہ اور سر سے خون ابل رہا تھا۔اس نے سیمان سے مدد طلب کی وہ دہائی دے رہا تھا کہ اسکی مدد کرو رحم کرو اور مرنے سے بچا لو۔سیمان نے سمجھا کہ یہ کوئی چور اچکا ہے جس نے کسی راہ گیر کو لوٹنے کی کوشش کی ہوگی اور تصادم کے نتیجے میں زخمی ہوا ہو گا۔
Government Delegation Tahirul-Qadri
سیمان نے اندر ہی اندر فیصلہ کیا چلتے بنو کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے زخمی یا ہلاک کرنے کے الزام میں دھر لیا جاوں۔ سیمان نے دوبارہ رخت سفر باندھا تو زخمی کی اہ و فغاں نے اسکے پاوں جام کردئیے یوں وہ مدد کرنے پر راضی ہوگیا۔ فادر سیمان کو زخمی نے بتایا کہ میں اپکو جانتا ہوں اپ فادر سیمان ہیں۔ہم دونوں عرصہ دراز سے دوست ہیں۔ میں چور ڈاکو یا پاگل نہیں ہوں مجھے چشمے پر لے چلو اور میرے زخموں کو صاف کرو۔ فادر کے بار بار اصرار پر کہ تم کون ہو کے جواب میں زخمی نے بتایا ہماری روزانہ ملاقات ہوتی ہے۔ فادر سیمان نے کہا نہیں تم جھوٹے دغاباز ہو۔ تم موت کے منہ میں جانیوالے ہو ایسے شخص کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔
زخمی کے چہرے پر پر اسرار مسکراہٹ پھیل گئی وہ بولا میں شیطان ہوں۔فادر سیمان نے اسکی جسامت قد و کاٹھ اور چہرے کے خدوخال کا جائزہ لیا تو واقعی شیطان تھا۔ سیمان کے چرچ میں اویزاں شیطان کی تصویر زخمی شیطان سے لگا کھاتی تھی۔ فادر د ھاڑا کہ تم پر خدا کی لعنت ہو میرے دل میں تمھاری نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ زخمی نے کہا میرا علاج کرواو ورنہ میں مرجاونگا۔ فادر نے کہا تمھارا مرجانا ہی بہتر ہے۔ تم انسانیت کے قاتل ہو۔ میں ہرگز کسی جہنمی جسم کو نہیں چھو سکتا۔ تم تو روے ارض سے ساری نیکیوں کو ختم کرنے کے درپے ہو۔شیطان فادر کے فرمودات پر کھول اٹھا اور جگالی کی تم میرے وجود کا بہانہ بنا کر اپنی برائیوں پر پردہ ڈالتے ہو اگر میں مرگیا تو تم بھی بھوکے مرو گے۔
اگر میں جہنم رسید ہوا تو تم کل کیا کرو گے؟ اگر میرا وجود صفحہ ہستی سے مٹ گیا تو تم کونسا پیشہ اختیار کرو گے؟ تمھاری دانش بنیش اور حکمت بھی میرے ساتھ مرجائے گی۔ میری موت تمھارے وقار گھریلو زندگی کو تہس نہس کردے گی۔میں نہ ہوتا تو عبادت گاہیں محلات تعمیر نہ ہوتے۔ میں انسانوں کو عزم دیتا ہوں لوگ اپنے اپکو زندہ رکھنے کی خاطر شیطان سے جنگ کرتے ہیں۔ میرے خوف سے بچنے کی خاطر لوگ عبادت گاہوں اور خانقاقاہوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ میری مذمت کرسکیں۔ اگر میں کائنات سے ناپید ہوا تو تمھاری روحیں کھوکھلی ہونگی تمھاری امیدیں خاک میں دفن ہوجائیں گی۔شیطان نے فادر کو مخاطب کیا اب فیصلہ اپ نے کرنا ہے چاہو تو مجھے علاج کی خاطر گھر لے چلو اگر چاہو تو مجھے مرنے کے لئے چھوڑ دو۔ فادر سیمان نے کہا تمھارا وجود وجہ تحریص ہے اور یہ وہ تدبیر ہے جسکے زریعے خدا انسانی روحوں کی ازمائش کرتا ہے ۔
اے شیطان تمھیں زندہ رہنا چاہیے اگر تم مرگئے تو دنیا سے گناہ کا تصور ختم ہوجائے گا۔ میں تمھاری مدد کرونگا میں تمھاری خاطر اپنی نفرت کی قربانی دونگا۔پاکستان میں کارزار سیاست سے لیکر میڈیا تک اور جاگیرداروں سے لیکر صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کے شعلہ بیاں اینکرز تک لاتعداد سیمان فادر موجود ہیں جو جمہوری نظام سے چڑ کھاتے ہیں۔ وہ امریت کے پیروکار ہیں۔یہ جمہوریت سے اتنی نفرت کرتے ہیں جتنی انسان شیطان سے کرتا ہے۔ انکی دال روٹی لنگر پانی عہدے رتبے ڈکٹیٹرشپ کے مرہون منت ہیں۔
Pakistan Elections
ایسے جمہور دشمن عناصر بھیس بدل بدل کر جمہوریت پر حملہ کرتے ہیں۔ عوام کی خوشحالی کے مخالف ہیں۔پاکستانی قوم انتہائی شعور رکھتی ہے۔وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت ہی تمام مسائل کا حل تلاش کرتی ہے۔پاکستان میں موجودہ جمہوری نظام کئی عظیم رہنماوں کی جانی قربانیوں کا تسلسل ہے۔
قوم پاکستان ایسے ابن الوقت لوگوں کی چیڑی چکنی باتوں سے گریز کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سیمان بنکر شیطان کی پوجا پاٹ کر رہے ہوں۔