ایک لمبا عرصہ بیرون ملک گزارنے والے اور پاکستان کی عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے “شیخ الاسلام ” اچانک پاکستان آئے اور ایک بڑا عوامی جلسہ کر کے پاکستانی سیاست میں ہل چل پیدا کر دی۔ان کی اس اچانک آمد کو مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے مختلف انداز نظر سے دیکھا۔
زیادہ تر لوگوں نے عام انتخابات کے التواء کو ان کی آمد کا مقصد گردانامگر قادری صاحب نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ کسی صورت اس حق میں نہیں اوراپنی آمد کا مقصد انتخابی اصلاحات بتایا۔ان اصلاحات کی خاطر قادری صاحب نے چودہ جنوری کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کی ٹھانی۔
مگر اس وقت جبکہ عام انتخابات بالکل قریب ہیں قادری صاحب کی یہ حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ رحمان ملک نے خبردار کیاہے کہ تحریک طالبان کے خودکش حملہ آور لانگ مارچ کو ہدف بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ طاہر القادری کی پاکستان آمد پر طالبان کا کہنا تھا کہ امریکن ایجنٹ کو لانچ کیا جا رہا ہے۔
طاہرالقادری کو طالبان کے خلاف فتویٰ دینے پر طالبان کی شدید مخالفت کا سامنا ہے۔رحمان ملک کے اس بیان کے بعد تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے رحمان ملک کے اس بیان کی تردید کی۔گزشتہ روز ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ ہمارے کارکنان کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور جلسے میں شرکت سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہم کسی صورت پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ادھرن لیگ قادری صاحب کے اس لانگ مارچ کو زیادہ اہمیت دیتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف وفاقی دارالحکومت میں ریڈ زون اور شاہراہ دستورکو خاردار تاروں اور کنٹینرز کی مدد سے سیل کر دیا گیا ہے۔
Supreme Court
ایسی صورت حال میں جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر چکا ہے مولانا کتنے جانثاروں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر سکیں گے، وقت سے پہلے کچھ کہنا ممکن نہیں۔دوسری طرف اگر لانگ مارچ کے شرکاء اگر ان رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کریں گے تو حکومت کے پاس دفعہ 144 سب سے بڑا ہتھیار ہے۔جس کی خلاف ورزی کرنے پر ہنگامہ آرائی اور شدید نقصان کا خدشہ ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں لانگ مارچ کے خلاف تین مختلف درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظرعدالت سے لانگ مارچ رکوانے کی استدعا کی گئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس پر کیا کاروائی کرتی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عبوری حکومت کا اعلان بھی گیارہ سے پندرہ جنوری کے درمیان کیا جائے گا۔ڈاکٹرصاحب کا اصل مقصد حکومت کو پریشرائز کر کے نگران وزیر اعظم بننا ہے یا انتخابی اصلاحات ۔ اس بارے میں کوئی رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔ کیونکہ اس پہلے بھی اس بھولی عوام پر امپورٹڈ وزیراعظم وارد ہوتے رہے ہیں۔
ایک طرف تو مولانا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری یہ تحریک خالصتاً غیر سیاسی تحریک ہے اوردوسری طرف مولانا کا یہ بیان کہ اگر نگران وزیر اعظم کی ذمہ داری سونپی گئی تو چیلنج سمجھ کر قبول کروں گا، کسی اور طرف ہی اشارہ ہے۔
قادری صاحب کے لانگ مارچ سے بہت سی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔قادری صاحب بھلے ہی آپ کے مقاصد مقدم ہونگے مگر میرے ناقص علم میں تو یہ بات آئی ہے کہ انسانی جان کی حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبے کا طواف کرتے ہوئے کعبے کو مخاطب کر کے فرمایا:”تو کتنا عمدہ ہے ا ور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے۔تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے (ابن ماجہ)۔”شیخ الاسلام صاحب ذرا اس حدیث پاک کو سامنے رکھیں اور لانگ مارچ کے دوران پلان کئے گئے خودکش حملوں کی انٹیلی جینس رپورٹ پر اک نظر کیجیئے۔
کیا پھر بھی آپ اپنے ارادے کو ترک نہیں کریں گے۔ مولانا آپ کی کریڈیبلٹی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔1999 میں آپ نے جو کردار ادا کیا تھاوہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ اے خدائے کریم اب ہمیں محب وطن اور عوام کا درد رکھنے والے حکمران عطا فرمانا۔ آمین۔