2008 کے انتخابات کا موقع ہو یا کسی امپورٹڈ ملاں کی ہڑتال یا لانگ مارچ کی کال ہو، ہر ہر کام میں ہم ہوش کی بجائے جوش سے کام لیتے ہیں مگر اس سلسلے میں ہمارے سیاستدان خاصے سمجھدار واقع ہوئے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں بہت ماہر ثابت ہوئے ہیں۔ ملک کس جانب جا رہا ہے یا عوام کس قدر مہنگائی، بے روزگاری، دہشتگردی کے ہاتھوں پریشان ہیں اس بات سے ان کرم فرمائوں کو کوئی غرض نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک پاکستان کے تمام ادارے ایک ایک کر کے تباہ ہو رہے ہیں۔ اب پی پی پی حکومت نے اپنے گزشتہ پانچ سالوں کی خامیوں پہ پردہ ڈالنے اور اگلے انتخابات میں ووٹ لینے کیلئے مختلف ترقیاتی کاموں کاآغاز کر دیا ہے۔ان کروڑوں روپے کے کاموں میں منصوبہ بندی اور پالیسی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
ان منصوبوں میں سوئی گیس کے نئے کنکشن دینا بھی شامل ہے۔کچھ دن پہلے ایم ڈی سوئی ناردرن گیس عارف حمید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سسٹم تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکا ہے۔سی این جی سٹیشنز اور صنعتی سیکٹر کو گیس کی بندش کے باوجودگھریلو صارفین کی طلب پوری نہیں ہو پا رہی۔عارف حمیدنے صارفین سے درخواست کی کہ گیزر اور ہیٹر کا استعمال کم سے کم کریں تاکہ کھپت کم ہو سکے۔واضح رہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا بیس فیصد اور دیہات کی صرف پانچ فیصد آبادی کو قدرتی گیس کی سہولت میسر ہے۔قابل فکر امر یہ ہے کہ بیس فیصد آبادی کی گیس کی طلب پوری نہیں ہو پا رہی اور حکومت اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے دھڑا دھڑ نئے کنکشن لگوا رہی ہے۔ جہاں ہم حکومت کی نااہلی، ناقص پالیسیوں اور مفاد پرستی کا ذکر کرتے ہیںوہیں ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔
Solar Energy
اگر دیکھا جائے تو ہم دیگر قدرتی وسائل کی طرح گیس کو بھی بہت بری طرح ضائع کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ہم گیزر کے استعمال میں احتیاط برتیں تو ہم پینتالیس فیصد گیس بچا سکتے ہیں۔ جس کی مالیت پینتالیس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ اس سے بچنے والی گیس کو اگر صنعتی شعبہ کو دے دیا جائے تو پاکستان برآمدات کی مد میں دو بلین ڈالر کما سکتا ہے۔ اس بد احتیاطی کی ایک بڑی وجہ ناخواندگی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرتی وسائل کے بہترین استعمال سے متعلق حکومتی سطح پر میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا جائے اور انرجی کے لئے متبادل ذرائع کا استعمال کیا جائے۔ جنگلات جو ملک میں پہلے ہی کم تھے وہ بھی ہم کاٹ کر اور جلا کر ناپید کر چکے ہیں۔ سولر انرجی اور ونڈ ملز کے ذریعے انرجی کی طلب کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ طویل المیعاد منصوبے ہیں اور حکومت کی دلچسبی کے بغیر ان پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ اس وقت انرجی کا بہترین ذریعہ بائیو گیس ہے جو کم خرچ اور کم وقت میں دستیاب ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے پاس ساڑھے چھ کروڑ بڑے جانور (جو کہ جانوروں کی چوتھی بڑی آبادی ہے) ہونے کے باوجود بائیو گیس کی طرف دھیان نہ دینا پالیسی سازی کے فقدان اور ملک کی بہتری و ترقی میں عدم دلچسبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک گھر کی ضروریات کے لئے بائیو گیس پلانٹ پر تیس ہزار روپے لاگت آتی ہے اور یہ پلانٹ تیس سال کے لئے کار آمد ہوتا ہے۔ اس میں اس قدر انرجی موجود ہوتی ہے کہ اس سے فریج اور ائر کنڈیشنر بھی باآسانی چلائے جا سکتے ہیں۔ بائیو گیس کے پلانٹ سے جہاں گیس پیدا ہوتی ہے وہیں بائیو فرٹیلائزر بھی پیدا ہوتا ہے جس سے فصل کی پیداوار میں پندرہ فیصد اضافہ اور ملکی آمدنی میں مجموعی طور پر ایک سو ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
بائیو گیس کو حکومتی سطح پر فروغ دینے سے پانچ سو ارب روپے سالانہ کی گیس کم لاگت پر تیار کر کے اپنی عوام کو فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ویتنام کی طرح اقوام متحدہ سے مدد بھی لی جا سکتی ہے۔ حاصل بحث یہ کہ ہماری حکومت اور عوام دونوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا تاکہ بجلی اور لکڑی کی کھپت میں کچھ کمی ہو سکے اور پریشانیوں کا کچھ ازالہ ہو سکے۔