انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم اور ضروری چیز مال ہے جس کے پاس مال ہے اسے امیر اور جس کے پاس مال نہیں اسے غریب کہا جاتا ہے اور یہ امیری و غریبی کی تقسیم نظام قدرت کے کمال کی خصوسیت ہے۔ اسلیے کہ سب امیر ہی ہوتے تو پھر کوئی بھی محکوم نظر نہ آتا۔
جس کے پاس ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے مال نہ ہو اسے قرض کی ضرورت پڑتی ہو، ایسے ہی ضرورت مند اور حاجت مندوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰة (زکوٰت)، صدقہ، اور قرض جیسی چیزوں کا مشروع کیا اور زکوٰة (زکوٰت) و صدقہ کی طرح قرض کو بھی باعث ثواب قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسکی تکالیف کو دور کریگا، اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ قرض دینا بھی ایک مستحسن اور مستحب عمل ہے۔
بعض موقعوں پر محتاج اور تنگ دست حضرات بلا سودی قرض نہ ملنے کیوجہ سے سودی قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ شاہد ہے کہ ایکطرف بینکنگ کے نظام نے سودی قرضہ سے لوگوں کے خون کو اسطرح چوسنا شروع کیا کہ لوگ یا تو خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے یا اپنے اہل و عیال کو فروخت کے لیے تیار ہو گئے، تو دوسری طرف بعض لوگوں نے اپنے آپکو بینک بنا کر خود سے سود پر قرضہ دینا شروع کیا۔
حالانکہ ایک زمانے تک نہ بینک کا نام و نشان تھا اور نہ اسطرح کا کوئی کاروبار۔ اسکے باوجود محتاجوں کو برابر قرض مل رہا تھا اور لوگ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کو بغیر سود کے قرض دیتے آ رہے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے اندر سے قرض دینے کا مستحسن عمل کیوں متروک ہو رہا ہے؟
State Bank of Pakistan
اس کا جواب واضح ہے کہ قرض لینے والوں نے باوجود قرض کی ادائیگی پر قدرت کے بروقت قرض ادا کرنے میں کوتاہی اور تساہل سے کام لینا شروع کیا۔ حالانکہ قرض لینا مباح ہے اور جائز کام ہے۔ اس میں کوئی شرمندگی نہیں۔
اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی قرض لیا ہے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی کے پاس سے تیس صاع جو قرض لیے تھے اور اسکے بدلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زرہ رہن میں رکھی تھی۔ ( سنن ابن ماجہ )
اسلیے قرض کی ادائیگی واجب اور ضروری ہے اور عدم ادائی باعث گناہ ہے۔
قرض ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں حدیث پاک میں وعید آئی ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (خلاصہ) اس حدیث پاک کا یہ مطلب ہے کہ مقروض میت کے بارے میں نہ نجات کا فیصلہ ہو گا اور نہ ہلاکت کا یہاں تک کہ یہ دیکھا جائیگا کہ اسکی طرف سے قرض ادا کیا گیا ہے یا نہیں۔
جب کوئی شخص مقروض ہونے کی حالت میں مرتا ہے تو اسکی روح قبر میں محبوس ہوتی ہے اور عالم برزخ میں دیگر روحوں کیساتھ اسے کشادگی حاصل نہیں ہوتی اور اسے جنت کی سیر سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسکی طرف سے قرض ادا کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس حالت میں مر جائے کہ اس پر ایک دینار یا درہم قرض باقی ہو تو اسوقت جب درہم و دینار کام نہیں آئیگا، اسکی نیکیوں کے ذریعے قرض ادا کیا جائیگا۔ ( سنن ابن ماجہ )
اسی طرح ایک حدیث میں بغیر قرض کے مرنے والے کو اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دخول جنت کی بشارت سنائی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ اس پر کسی کا قرض نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ( سنن ابن ماجہ )
ایک موقع پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قرض ادا نہ کرنیوالوں کو اس فعل سے بچنے اور اس سے باز آنے کیطرف توجہ دلانے اور اس فعل کے سخت گناہ ہونے کو بتلانے کیلئے ایک مقروض پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا کہ تم پڑھ لو۔ ( صحیح مسلم )
اس کے علاوہ شریعت اسلامیہ میں کئی مقامات پر قرض کی ادائی کا وقت ہونے پر قرض ادا نہ کرنیوالے کے حق میں سختی کا معاملہ کیا گیا ہے۔
من جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کا وقت ہونے کے بعد دائن ( قرض دینے والے ) کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ مقروض کو سفر کرنے سے روکے، یہاں تک کہ وہ قرض ادا کرے پھر سفر کرے۔
travel camel
اسی طرح باوجود دین کی ادائیگی پر قدرت کے جو دین ادا نہ کرے یا ٹال مٹول کرے تو اسے قاضی کے حکم سے قید کیا جائے۔ اسلام میں جہاد جیسے اہم و عظیم کام کی فضیلت و اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن قرض کی ادائیگی کو جہاد پر مقدم کیا گیا ہے۔
چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ قرض کی ادائیگی کا وقت ہونے کیبعد قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر جہاد کی غرض سے سفر کرنا حرام ہے۔ ( منہاج الطالبین )
اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونیوالے کا ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے، سوائے قرض کے ( مسلم )
لہٰذا قرض کی ادائی اس پر لازم ہونے کیبعد جہاد جیسے کام کیلئے ادائے قرض کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قرض ادا نہ کرنے کا گناہ کتنا سخت ہے اور مذہب اسلام میں قرض ادا نہ کرنیوالے کیساتھ کسطرح سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ لہٰذا قرض لینے والوں کو چاہیے کہ وعدے کے مطابق قرض کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ قرض دینے والے آئندہ بخوشی قرض دے سکیں۔
آج اگر سارے قرض لینے والے پوری ایمانداری و دیانتداری کیساتھ قرض ادا کرنے لگیں تو مالداروں کو بھی قرض دینے میں کوئی پریشانی نہ ہو گی اور سود جیسے بڑے گناہ سے حفاظت بھی ہو گی۔ البتہ قرض دینے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مقروض اگر حقیقت میں قرض کی ادائیگی پر قادر نہیں ہے تو اسے کچھ دنوں تک مہلت دیں۔