وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان سے ڈومورکے مطالبے کا وقت گزر چکا اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ خود ڈومور کرے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے ہی بہت کچھ کیا اور بہت قربانیاں دی ہیں اب ڈومور کے لئے پاکستان پر مزید دبا نہ ڈالا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ذہین طلبا کے لئے وظائف کے پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور سیلاب زدگان کی مشکلات کے پیش نظر اپنا دورہ امریکہ بھی منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دینے کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے انتہائی ذمہ دار ادارے اور اعلی حکام پاکستان کے خلاف سنگین الزام تراشی سے نہ صرف باز نہیں آرہے بلکہ پاکستان کو اس جنگ میں ناکام قرار دینے اور اس کی اجازت کے بغیر ازخودحقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے کابل میں اتحادی افواج کے دفاتر اور امریکی سفارتخانے پر حملے کا ذمہ دار حقانی نیٹ ورک کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ صرف اس نیٹ ورک کی سرپرستی کر رہا ہے بلکہ اس کے خلاف کارروائی میں بھی ناکام ہوگیا ہے امریکہ اپنے مفادات کے خلاف پاکستان سے ہونے والے حملوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ دوسری طرف نائب امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان کو ناقابل اعتبار اتحادی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اکثر امریکہ اور القاعدہ کے درمیان در ست انتخاب میں نہ صرف ناکام رہا ہے بلکہ اکثر موقعوں پر اس کا تعاون بھی ناکافی رہا جس کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوجی مارے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہم ان سطور میں پہلے بھی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اسپین میں نیٹو کے دفاعی سربراہوں پر واضح کر دینا چاہئے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے خلاف کوئی بیرونی دبا قبول کرنے کی بجائے عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرے گا ۔ملکی خود مختاری ، آزادی، سلامتی اور قومی مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی وضع کرنا پاکستان کا حق ہے ہم دہشت گردی کے خلاف پرعزم ہیں اور اس کے لئے ہم نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں لہذا امریکہ و نیٹو ممالک کو پاکستان کے خلاف مضحکہ خیز الزام تراشی کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ یہ بات بطور خاص باعث اطمینان ہے کہ آرمی چیف نے قومی و ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے پا کستان کے خلاف الزام تراشی اور دھمکیوں کی تارپود بکھیر کر رکھ دی ہے ۔وزیراعظم نے بھی دیر سے ہی سہی اس حوالے سے غیر مبہم الفاظ میں پاکستان کا جو موقف پیش کیا ہے پاکستانی عوام کی خواہش تھی ۔وزیراعظم کو اس موقف کا اظہار بہت پہلے کر دینا چاہئے تھا لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس کی بنیادی وجہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا پاکستان پر ناجائز دبا تھا جس نے حکمرانوں کو مہر بلب کئے رکھا حالانکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پانچ ہزار فوجی افسر اور جوان اور 30ہزار سے زائد بے گناہ شہری جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں پاکستان کو نیٹو اور اس کے اتحادیوں کی نسبت کہیں زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔بجائے اس کے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کی ا ن عظیم قربانیوں کا اعتراف کرتے الٹا ڈومور کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اسے ہدف تنقید بنانے اور خوفناک نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ ایک تو یہ ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہیں دوسرا یہ کہ وہ خود جانی و مالی قربانیاں دینے کی بجائے پاکستان کو اس بھٹی میں جھونکنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے فیصلے ملکی و قومی مفادات کے پیش نظر کرنے اور ہرقسم کے بیرونی دبا کو مسترد کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔یہ کہنااپنی جگہ درست کہ اب امریکہ ڈومور خود کرے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم محض قوم کو خوش کرنے کے لئے یہ بات نہ کریں بلکہ اس کا ٹھوس عملی مظاہرہ بھی عوام کے سامنے آنا چاہئے کل کلاں کو اگر پھر کسی امریکی عہدیدار کی طرف سے پاکستان پر دبا ڈالا گیا، تو اس پر ہماری سیاسی قیادت سرنگوں ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ قومی وقار کے منافی بات ہوگی جسے پاکستان کے عوام قبول نہیں کریں گے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہاں تک امریکہ کا ساتھ دیا اور دراندازی روکنے کے لئے کیا کیا اقدامات کئے یہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم نے جن قبائلی علاقوں کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا ہم نے امریکی دبا اور دوسرے ممالک کی طرف سے پاکستان میں دراندازی روکنے کے لئے ایک لاکھ سے زائد فوج پاک افغان سرحد پر تعینات کرنے کے علاوہ بڑی تعداد میں چیک پوسٹیں بھی قائم کی ہیں۔امریکہ اور بڑی تعداد میں اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود پاکستان میں دراندازی رکنے میں نہیں آرہی اور ان کے تربیت یافتہ دہشت گرد آئے روز بے گناہ افراد کو اغوا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں یہ یقینا پاکستان پر دبا ڈالنے کا ایک مذموم حربہ ہے۔ حال ہی میں درجنوں پاکستانی بچوں کو اغوا کرکے افغانستان لے جایا گیا۔ تربیت یافتہ دہشت گردوں نے اب چترال کے سرحدی علاقوں پر بھی حملے شروع کر دیئے ہیں اس کے باوجود اگر پاکستان ناقابل اعتبار اتحادی ہے تو امریکہ کس طرح اپنے آپ کو ہمارے قابل اعتماد اتحادیوں کی صف میں شامل کرسکتا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے موقف کے مطابق ہم کسی بیرونی دبا کے بغیر صرف اور صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کریں۔ ہم گزارش کریں گے کہ وزیراعظم کو محض ایک بیان دے کر ہی مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے۔ پوری قوم یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ قومی و ملکی مفادات کے منافی ہر دبا کو یکسر مسترد کر دیا جائے اسی کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر دفاع اور نائب صدر کی دھمکیوں کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی بیرونی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے اور اپنی ا زادی، سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایبٹ آبادجیسے کسی آپریشن کی جرت نہ کرسکیں محض زبانی کلامی امریکی دبا کو مسترد کر دینا امریکی دھمکیوں کا جواب نہیں۔ ایسی کسی بھی کارروائی کو نقش بر آب بنا کر رکھ دینا ہی ہمارے قومی وقار کے تحفظ کی ضمانت ثابت ہوسکتا ہے۔ ٹارگٹ کلرز کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مسئلہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کو فوری سزا دینے کو یقینی بنانے کے لئے قانون شہادت ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی۔ ٹارگٹ کلرز کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے جو بھی اقدام کیا جائے اصولی طور پر اس کی حمایت ہی کی جائے گی لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا ٹارگٹ کلرز قانون شہادت میں پائے جانے والی بعض خامیوں کی بنا پر ہی سزا سے بچتے ہیں یا اس کے پس پردہ بعض اور عوامل بھی کارفرما ہیں۔ اب تک سامنے آنے والے شواہد اور قرائن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی بنا پر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کی عدم فراہمی یا بعض سیاسی گروہوں کی سرپرستی میں کام کرنے والے بھتہ خوروں اور لینڈ مافیا کے کارندوں کے خوف سے جان بوجھ کر شہادتوں کو خراب کرنا ہی وہ عوامل اور محرکات ہیں جو عدالتوں کو ٹارگٹ کلرز کو چھوڑ دینے پر مجبور کرتے ہیں اور اس کا الزام بھی نہایت بے جا طور پر عدالتوں پر لگایا جاتا ہے کہ پولیس تو مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لے آتی ہے لیکن عدالتیں انہیں چھوڑ دیتی ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ عدالتوں نے تو قانون اور دستیاب شہادتوں کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر ان میں پیش کی جانے والی شہادتیں ناقص ہوں گی تو عدالتیں ان کو کیسے سزا دیں گی۔ انگریز دور میں اسی قانون شہادت کے تحت مجرموں کو سزائیں ہوتی تھیں اور امن عامہ کی صورتحال بھی موجودہ دور سے بہت بہتر تھی اس پس منظر میں ہماری گزارش ہے کہ اگر حکومت قانون شہادت ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو بے شک کرے لیکن اصل کام نظام تفتیش کو بہتر بنانا ہے۔ پاکستان اسلامی تعلیمات کی تجربہ گاہ کے طور پر ایک مثالی اسٹیٹ بنانے کے لئے بنایا گیا تھا اس لئے اگر اس میں خطرناک جرائم کی سزا کے لئے اسلامی حدود و تعزیرات کو نافذ کیا جائے تو یہاں چند ہی ہفتوں اور مہینوں میں ان جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اور جن مسلم ممالک میں یہ قوانین نافذ کئے گئے ہیں وہاں مغربی اور مغرب زدہ ممالک کے مقابلے میں ایسے جرائم کی انتہائی کم شرح اس بات کا ثبوت ہے کہ خطرناک مجرموں کو عبرتناک سزائیں دینے سے ہی جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔