پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کر پشن اور بے ضابطگیوں کی ان گنت کہانیاں ہیںمگر آج تک کر پشن اور بے ضابطگیوں کی کو ئی کہانی اپنے انجام کو نہیں پہنچی کیونکہ کرپشن کرنیوالے اتنے چالاک اور ہو شیار ہیں کہ اپنی کر پشن کا کو ئی ثبوت چھوڑتے ہی نہیں۔ سوئس بینکوں میں کسے معلوم نہیں کہ وہ پیسہ کس کا ہے اور کون اُسے وہاں لیکر گیا اورکیوں اس کیلئے وزرائے اعظموں کی ”بَلی”دی جارہی ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ سوئس عدالتوں کو ”محبت نامہ”نہیں لکھا جا رہا۔کیوں سعودی عرب اور لندن میں کاروبار جمانے والے بتانے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کر نے کیلئے رقوم کہاں سے حاصل کیں یا کہاں سے لیکر گئے؟ برطانوی شہریت کے” ٹیلی فون فیم” لیڈر لندن کے انتہائی مہنگے ترین علاقے میں مقیم ہیں تو ان کاخرچہ کون اٹھا رہا ہے کوئی نہیں بتا سکتا۔
ماضی میں روس نوازی کا لبادہ اوڑھنے والے آج امریکی سا مراج کے ڈالرز سے کھیل رہے ہیں تو اس یوٹرن کی کیا وجہ کسے معلوم نہیںالغرض ہر کوئی جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور اصل ماجرا کیا ہے۔ سول اور ملٹری بیوروکریٹس نے قومی اداروںکے خون کو جونکوںکی مانند نچوڑا مگر کتنے ہیں جن کے حلق کو دبا کر وہ سب کچھ اگلوا گیا جو انہوں نے ”شیر مادر”سمجھ کر پیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے کہ اسے ہر اعتبار سے نقصان پہنچانے والوں میں جہاں سیاستدانوں کا ہاتھ ہے وہاں پرسب سے بڑا اورخفیہ ہاتھ بیوروکریسی یعنی افسر شاہی کا ہے خواہ وہ سول ہو یا ملٹری بیوروکریسی۔پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو کون نہیں جانتااگر پاکستانی سیاست میں برائی کی جڑ کسی کو کہا جاسکے تو وہ موصوف ہیں۔انہوں نے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اسمبلیاں توڑنے،وزیراعظم کو برطرف کرنے ،عدالت سے اپنے منفی اقدام کو مثبت قرار دلوانے اور نظریہ ضرورت جیسی بدعات کا آغاز کیا۔وہ دن اور آج کا دن ملک پاکستان سول اور ملٹری بیورو کر یسی کے ہاتھوں کھلونا بنا ہو اہے ۔سیاسی حکومتوں کو ناکام کر نے میں سول بیوروکریسی کا خصوصی کردار رہا ہے تو ملٹری ڈکٹیٹر شپ کو کندھا مہیا کر نے میں بھی ہمیشہ یہی پیش پیش رہی ہیں۔
dollars
پاکستان کی طرح بیرون ملک مقیم اوورسیز پاکستانی بھی اسی بیوروکریسی کے ہاتھوں تماشہ بنے ہوئے ہیں۔ دیار غیر میں پاکستانی ملک کے” کماؤ پوت ”کا درجہ رکھتے ہیںجو اربوں ڈالرز کا زر مبادلہ ملک بھیجتے ہیں اور ملک کی معاشی گاڑی کے پہیے کو گردش دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر جس طرح سے انہیں بیرون ملک سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے ،اس کی نظیر شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ملے۔ملک کے ائیر پورٹس پر بھی اسی بیوروکریسی کے کل پُرزے پاکستانیوں کو کسٹم ،بلاوجہ چیکنگ اور”نذارنے” کے نام پر ذلیل ورسوا کر تے ہیں۔
زیادہ دور کیوں جائیں ، بارسلونا میں قائم قونصلیٹ آفس کو ہی لے لیجئے۔یہاں پر بیٹھنے والے بیوروکریٹ کے ذہن میں ہوتا ہے کہ وہ” وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن”ہے اور پاکستانی اس کی ”رعایا”ہیں،یہی وجہ ہے کہ سابق قونصل جنرل نے قونصلیٹ قائم ہو تے ہی وہاں پر ”دوسے چاریورولیکر فارم پُرکرانے کادھندہ”شروع کرا دیااور موجودہ قونصل جنرل مسعودخان راجہ نے اس کو جوں کاتوں برقرار رکھا،اس”عوامی خدمت”کا پاکستانی قانون میں کو ئی جواز نہیںیعنی کوئی بھی شخص کسی بھی قومی ادارے کو اپنے دھندے کیلئے استعمال نہیں کر سکتاخواہ وہ اس ادارے کا ملازم ہی کیوں نہ ہو مگر یہ”دویوروایجنٹ مافیا ”تو ادارے کا حصہ بھی نہیں تھا مگر اس کو ادارے کیجانب سے کرسی، میز،جگہ اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی گئیںاور یہ دھندہ کئی سالوں سے جاری ہے اور اس قانون شکنی کو ”عوامی خدمت”کا نام دیا گیا۔جو لوگ یہ راگ الاپتے ہیں کہ قونصلیٹ بارسلونا میں کو ئیبے ضابطگی نہیں ہو رہی وہ ذرادل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیں کہ اس سے بڑیبے ضابطگی کیا ہو گی کہ قانون کو پس پشت ڈال کر قومی ادارے میں غیر قانونی کام کیا جائے۔
اس دھندے سے حاصل ہونیوالی رقم کا بھی کو ئی حساب کتاب نہیں کہ وہ کون وصول کرتا ہے اوریہ کس کی جیب میں جاتی ہے۔ ”دوسے چاریورولیکر فارم پُرکرانے کے دھندے”کیلئے جواز گھڑا گیا کہ پاکستانیوں کی عظیم اکثریت ان پڑھ ہے ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جوملک پاکستان کی شرح خواندگی ہے اس کی بناء پر سارے ملک کو ایسے ایجنٹوں کے حوالے کرنا پڑیگا۔راقم الحروف گزشتہ کئی سالوں سے اس بے ضابطگیکیخلاف لکھ رہا ہے اور اس کرپشن کیخلاف بغاوت کا علم بھی سب سے پہلے اٹھانے کی سعادت خاکسار کے حصے میں آئی مگر پرنالہ ہے کہ مسلسل وہیں گر رہا ہے۔
Consulate in Barcelona
قونصلیٹ بارسلونا میںبے ضابطگی کا دوسرا بڑا ثبوت ”سیتا سسٹم ”یعنی پیشگی وقت لیکر آنا ہے جس کا دورانیہ شیطان کی آنت کی مانند بڑھتا ہی جارہا ہے جبکہ ماضی کے مقابلے میں نہ تو کمیونٹی کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو ا ہے،نہ ہی پاکستانی خود رو بوٹی کی طرح اُگ آئے ہیں اور نہ ہی قونصلیٹ کے عملہ میں خوفناک کمی واقع ہوئی ہے ، ”سیتاسسٹم ”یعنی پیشگی وقت لیکر آنے کو 7 دن سے 45دنوں پر لیجانے کا مقصد ہی یہ ہے سائلین کو تنگ کیا جائے۔پاکستانی اداروں میں بے ضابطگی کا یہ انوکھا طریقہ رائج ہے کہ سائل کو چکر لگوالگو کر اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ جناب میں کیا ”خدمت ”کروں آپ کی اور کیسے میری فائل کو پہیے لگ سکتے ہیں۔ ”سیتاسسٹم ”یعنی پیشگی وقت لیکر آنے کے دورانئے میں اضافے کی ایک دوسری بڑی وجہ وہ سفارشی پاسپورٹس بھی ہیں جو منظور نظر لوگ ایک بڑی تعداد میں لاتے ہیںاور بنواتے ہیں ۔اس ضمن میں ”سیتاسسٹم ”یعنی پیشگی وقت کے ریکارڈ کو چیک کیا جاسکتا ہے کہ کتنے لوگ ”سیتا سسٹم”لیکر آئے اورانکا کام ہوا اور کتنے ہیں جو ”باروباہر”فیض یاب ہو ئے۔
قونصلیٹ بارسلونا میںبے ضابطگیکا تیسرابڑا ثبوت وہ واقعات ہیں جن میں پولیس کو متعدد مرتبہ طلب کر کے پاکستانی کمیونٹی کے معصوم اور بے گناہ افراد کو گرفتار کرانا ہے اور ایک موقع پر قونصل خانے کے خارجی دروازوں پر تالے ڈال کر درجنوں افراد کو گرفتار کروایا گیا اور قونصل جنرل مسعودخان راجہ نے ”فاتح پاکستانی کمیونٹی”کا ”اعزاز”پایا۔ایسی کونسی قیامت قونصل خانے میںٹوٹتی رہی کہ اس کاحل پولیس کو طلب کرنا ٹھہرا۔ان واقعات کی تحقیقات کیلئے پاکستانی حکومت کو اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دینا چاہیے اور اس سے قبل سفیر پاکستان رضوان الحق قاضی کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔
قونصلیٹ بارسلونا میںبے ضابطگی کا چوتھا بڑا ثبوت وہ پولیس رپورٹ ہے جو قونصل جنرل مسعود خان راجہ نے گھبراہٹ ،جھنجلاہٹ اور نادانی میں معززین بارسلونااور صحافیوں کیخلاف درج کرائی ہے جس میں جھوٹ کی تمام حدوں کو پھلانگ دیا گیا ہے ۔آخر یہ جھجلاہٹ ،گھبراہٹ اورنادانی کی وجہ کوئی غلط کام تو نہیں ؟جس کے افشاء ہو نے کاخوف مسعودخان راجہ کو تھا۔اس رپورٹ کی بنیاد16جولائی2012 کو پاکستان کی معروف سیاسی شخصیت چوہدری شجاعت حسین اور ڈپٹی وزیراعظم پرویزالہیٰ کے چھوٹے بھائی چوہدری شفاعت حسین کے ہمراہ ایک وفدکا قونصلیٹ آفس کا وزٹ بنا ہے۔وفد قونصلیٹ آفس پیشگی وقت لیکر گیا،اس وفد میں سیاسی ،سماجی ورکرز کے علاوہ صحافی بھی شامل تھے ۔اس وفد کے قونصلیٹ جانے کا مقصد تھا کہ عوامی شکایات کا جائزہ لیا جائے اور قونصل جنرل کو درپیش مسائل کوجانا جاسکے مگر پُرامن طریقے سے شروع اور چائے پرختم ہو نیوالی ملاقات کو بعدازاں منظور نظر مگر نادان ”خیرخواہوں” کے کہنے پر قونصلیٹ پر ”حملہ”قرار دیدیا گیا۔قونصل جنرل کے نادان”خیرخواہوں”نے مشورہ دیا کہ”حضور کا اقبال بلند ہو ،رعایا میں سے چند ”باغیوں”نے آپ کی ”شان اقدس” میں نافرمانی کردی ۔
barcelona police
حضور کیا ہی اچھا ہو کہ ان میں سے چند لوگوں کیخلاف پولیس رپورٹ درج کرادی جائے،پھرکیا ہو گاان ”باغیوں ”کے گھروں اور دکانوں کا گھیراؤ ہو گا۔پولیس کے مستعد اہلکار ان”باغیوں ”کے منہ کپڑوں سے ڈھانپ کر رکوع کی حالت میںلیجاکر انکو بکتر بند گاڑیوں میںڈالیں گے اورپھر کیا ہو گا کہ حضور کا اقبال ہمیشہ ہمیش کیلئے بلند ہو جائیگا اور پھر کو ئی باغی اس حرکت کی جرات نہیں کر سکے گا”۔مگر پولیس رپورٹ کے منصوبہ سازوں کو اُس وقت منہ کی کھانی پڑی جب ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔کچھ نہ ہونے کی وجہ وہ جھوٹ ہے جو پولیس رپورٹ کیلئے گھڑا گیا۔قارئین محترم !یہ جھوٹی رپورٹ قونصل جنرل مسعودخان راجہ کی کرپشن کاسب سے بڑا ثبوت ہے،جس کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی اوراس جھوٹ میں رمضان المبارک کے تقدس کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا،آخر کیا وجہ ہے کہ جھٹ سے ایک نجی پاکستانی ٹی وی چینل کے رپورٹر کو بلجیم سے بلوایا گیا ایک من پسند رپورٹ تیار کروائی گئی ،اُس رپورٹر کو دفتر کے اس حصے میں رسائی دی گئی جہاں عام آدمی داخل نہیں ہو سکتا،یہ لاقانونیت کیوں کی گئی،آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
راقم الحروف سمیت تمام ملزمان کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی ”سی سی ٹی فوٹیج”کو پبلک کیا جائے تاکہ کمیونٹی جائزہ لے سکے کہ واقعی قونصلیٹ پر حملہ ہواہے یا نہیں۔عملے کی ہتک کی گئی ہے یانہیں اور ضروری فائلیں چرائی گئیںیا رپورٹ کو سخت بنانے کیلئے ”پاکستانی سٹائل اختیار کیا گیا ہے۔قارئین محترم !”سی سی ٹی کیمروں ”کی فوٹیج ہی اس بات کا سب سے بڑ اثبوت ہے کہ حقیقت کیا ہے؟گو اس واقعے کی تمام ریکارڈنگ ہمارے پاس موجود ہے مگر ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ریکارڈنگ حاصل کی جائے جو قونصلیٹ کی عمارت میں نصب ہیں، اس ریکارڈنگ میں دیکھا جائے کہ کہاں پر چوہدری عبدالغفار مرہانہ ، راجہ بشارت علی، سفیان یونس ، شفقت علی رضا ، زاہد مصطفی اعوان ، رضوان کاظمی اور راقم الحروف قونصلیٹ پر حملہ کر رہے ہیں ،کہاں پر عملہ کی توہین کی جارہی ہے اور کہاں پر فائلیں چرانے کا گھناونا عمل سرانجام دیا جا رہا ہے
اگر ایسا نہیں ہوا تو دیار غیر میں پاکستانی قوم کی بدنامی کا باعث بننے والے بیوروکریٹ کو اس کے منصب سے معزول کیا جائے ورنہ کمیونٹی کی عزت یوں ہی تارتار ہو تی رہے گی ، پاکستانی قوم کے ماتھوں پر بلاوجہ بدنامی کے داغ لگتے رہیں گے اور یونہی پاکستانی قوم کے نوجوان اس قونصل جنرل کی رپورٹس پر پابند سلاسل ہو تے رہیں گے۔ تحریر ِ:مرزاندیم بیگ