اسلام آباد : (جیو ڈیسک) سپریم کورٹ میں اڈیالہ جیل سے لاپتہ قیدیوں کے مقدمے کی سماعت نو اپریل تک ملتوی کر دی گئی، عدالت نے میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد چار قیدیوں کو پشاور کے قریب ترین مرکز میں رکھنے کا حکم دیدیا۔ جسٹس طارق پرویز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسپتال میں زیرعلاج قیدیوں کی زبان نہیں تو کم از کم آنکھیں ہی کھول دی جائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ چیف سیکریٹری خیبرپختونخواہ نے قیدیوں کی صحت سے متعلق میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی۔رپورٹ کے مطابق شفیق الرحمان، محمد شفیق، گل روز اور مظہر الحق کی حالت بہتر ہے جبکہ دیگر تین قیدیوں کو اسپتال میں رکھنا ضروری ہے۔
قیدیوں کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ حافظ ماجد کینسر میں مبتلا ہے جبکہ تین قیدیوں میں ٹی بی کی تشخیص ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چار قیدی مر چکے ہیں، ہم یہاں چپ ہو کر نہیں بیٹھ سکتے، جیگ برانچ کے وکیل راجا ارشاد نے کہا کہ وہ آپریشنل ایریا کے حالات پر عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتے ہیں ، وہاں فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اور آئی ایس آئی پر جان بوجھ کر الزام لگائے جا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں وہاں کے حالات کا علم ہے لیکن کریمنلز کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق ہی ہونی چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج قابل احترم ہے، اس نے ملک کے دفاع کا حلف لے رکھا ہے، کچھ لوگ ہیں جو فوج کی بدنامی کا باعث ہیں تاہم ملک کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔
جسٹس طارق پرویز نے ریمارکس دیئے کہ دو سوئس شہریوں کو بازیاب کرا لیا گیا لیکن پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ابھی تک لاپتہ ہیں، انہوں نے کہا کہ اسپتال مین زیرعلاج قیدیوں کی زبان نہیں کھول سکتے تو کم از کم انکی آنکھیں ہی کھول دیں چیف جسٹس نے کہا کہ کل اسلام آباد سے دو شہریوں کو اٹھا لیا گیا، اٹارنی جنرل صاحب یہ آپ کے شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ عدالت نے بہتر حالت میں موجود چار قیدیوں کو پشاور کے قریب ترین مرکز میں رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کی اہلخانہ سے ملاقات کرانے کی ہدایت بھی کی ہے، دیگر تین قیدیوں کو اسپتال میں رکھنے حکم دیا گیا ہے۔